اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مذہب کی ’ریڈ لائن کراس‘ کی گئی جس کی وجہ سے ملزم کے اعترافی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے مذہبی جنونیت ہے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے عمران خان پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسا واقعہ ہے جو ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، عالمی دنیا میں سوچا جارہا ہے کہ پاکستانی قوم کی ذہنیت کس جانب جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ عمران خان پر حملے میں کوئی سازش ہے تو انہیں بے نقاب کیا جائے، واقعے کو اگر سیاسی رنگ دے دیا جائے گا تو ماضی کی طرح یہ واقعہ بھی قیاس آرئیوں کا شکار ہوجائے گا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پچھلے دہائیوں میں بے نظیر بھٹو شہید کے واقعے میں ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پر حملے کی تحقیقات بھی قیاس آرئیوں کی نظر ہوگئی، ماضی میں اس طرح کے واقعات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پر حملے کے واقعے کی ابتدائی تحقیقات میں واقعے کے پیچھے مذہبی جنون کارفرما نظر آرہا ہے۔
خوجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذہب کی ’ریڈ لائن کراس‘ کرنے والے بیانات کا استعمال کیا گیا، انہوں نے الزام لگایا کہ اسی وجہ سے ایک شخص نے ان پر حملہ کیا، ملزم کے اعترافی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے مذہبی جنونیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ماضی میں کہتے رہے کہ انہیں خون ہی خون نظر آرہا ہے اور لاشیں گریں گی تو دیکھ لیں کہ لانگ مارچ میں 4 لاشیں گری ہیں، عمران خان کو اللہ نے بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کی نظریں پاکستان کی جانب ہے کہ اس واقعے کے بعد پاکستان کا کیا بنے گا؟ اس واقعے کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ جہاں یہ واقعہ ہوا اس تھانے کے تمام عملے کو ملزم کا بیان جاری کرنے پر معطل کردیا گیا ہے، نہ کہ اس لیے کہ ایسا واقعہ کیوں پیش آیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی عمران خان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، آج پنجاب کے ڈاکو کی وزارت اعلیٰ کے نیچے عمران خان کے خلاف یہ واقعہ ہوا، تھانوں میں عملہ تبدیل کیا جارہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کو بے نقاب کیا جائے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ واقعے کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے، عمران خان نے وزیراعظم، رانا ثنااللہ سمیت 3 افراد کو ملزم بنا دیا، کل تک عمران خان کہہ رہے تھے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ہیں اور آج فوج کے ادارے کے افسر کے خلاف ہی الزامات لگائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعے میں سیاستدانوں اور فوج کے ادارے کے سینئر افسر کا نام لے کر مسئلے کا رخ اُس جانب موڑا جارہا ہے جہاں قاتلانہ حملے کا کوئی ملزم نہیں ملے گا، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دونوں طرف سے فائرنگ کی گئی، خول کے علاوہ سَب مشین گن کے خول بھی ملے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ آئی بی نے پنجاب حکومت کو کہا تھا کہ دھماکا یا فائرنگ ہوسکتی ہے، واردات کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لیکن وفاقی حکومت واقعے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی، واردات کے ذریعے ادارے اور شخص کو بدنام کرنا قابل مذمت ہے۔
خیال رہے کہ 3 نومبر کوپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کے دوران پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں نامعلوم مسلح شخص کی فائرنگ سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور متعدد رہنما سمیت 7 افراد زخمی اور ایک کارکن جاں بحق ہوگیا تھا۔ پنجاب پولیس نے بیان میں کہا تھاکہ جاں بحق شخص کی شناخت معظم نواز کے نام سے ہوئی ہے۔
واقعہ کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف، وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت حکومت اتحاد میں شامل رہنماؤں سمیت عالمی رہنماؤں نے بھی عمران خان پر حملے کی مذمت کی تھی، اس کے علاوہ شوبز اور کرکٹ کھلاڑیوں نے بھی عمران خان پر قاتلانہ حملے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ تاہم واقعہ کی ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کے کنٹینر کے قریب فائرنگ کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سے رپورٹ طلب کی تھی۔
چوہدری پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے اور فائرنگ میں ملوث ملزمان کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
ضلع گوجرانوالہ کے تھانہ کنجاہ کی پولیس کی جانب سے گرفتار مبینہ حملہ آور کے بیان کی ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ’یہ اس لیے کیا کیونکہ عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اور مجھ سے یہ چیز دیکھی نہیں گئی، اس لیے مارنے کی کوشش کی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے صرف عمران خان کو مارنے کی کوشش کی تھی ، میں نے سوچا ادھر آذان ہو رہی ہے وہاں ڈیک لگا کر شور کر رہے تھے، یہ میری ضمیر نے اچھا نہیں مانا‘۔