اسلام آباد: (سچ خبریں) سینیٹر طاہر بزنجو کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی قواعد و ضوابط اور استحقاق کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی(ڈی جی سی اے اے) کے خلاف تحریک استحقاق کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
ڈان نیوز کے مطابق نگران وزیرمرتضیٰ سولنگی اور مشیر ہوا بازی فرحت حسین ملک بھی اجلاس میں شریک ہوئے، مشیر ہوا بازی نے بتایا کہ مجموعی طور پر 83 پائلٹ کے لائسنس کا مسئلہ تھا، 33 کے لائسنس معطل ہوئے تھے۔
ڈی جی سی اے اے کا کہنا تھا کہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی تھی، فرحت حسین نے بتایا کہ قانون لائسنس کینسل کرنے پر ڈی جی سی اے اے کی پاور پر خاموش ہے، اس مسئلے پر اب نئے رولز بنانے پڑیں گے۔
اس موقع پر سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ رولز کب سے نہیں بنے، یہ تشویشناک بات ہے، سیکیریٹری سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ پاکستان میں ائیر کرافٹ حادثات کی ایک سریز چلی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ اجاگر ہوا، یورپی یونین نے پاکستانی ائیر لائنز پر امریکا میں فلائنگ آپریشنز پر خدشات ظاہر کیے تھے۔
سینیٹر علی ظفر نے سوال کیا کہ لائسنس کینسل کرنے کی وجوہات کیا رولز میں درج ہیں؟ ڈی جی سی اے اے نے بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس سارے معاملے پر تحقیقات کی تھیں، لائسنس منسوخ ہونے پر پائلٹ کے پاس اپیل کا حق ہے، 33 کیسز میں ایف آئی اے نے ایف آر درج کی ہوئی تھیں۔
یاد رہے کہ پائلٹس کے لائسنس منسوخی کا معاملہ اس وقت اجاگر ہوا جب 2020 میں کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر 860 فعال پائلٹس ہیں ، اس حوالے سے گریڈ 22 کے افسر کے ذریعے انکوائری کروائی گئی جس کے مطابق 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے ہیں جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں کہ 860 میں سے 262 یعنی تقریباً 30 فیصد پائلٹس ایسے ہیں جن کے لائسنسز جعلی ہیں جنہوں نے خود امتحان نہیں دیا ان کافلائنگ کا تجربہ ہی نہیں، اس کے بعد پی آئی اے نے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔
25 جون 2020 کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو طلب کرتے ہوئے ملک کی مختلف ایئرلائنز کے کچھ پائلٹس کے جلعی لائسنس کے الزامات کی وضاحت کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سی اے اے کے ڈائریکٹر کو ہدایت کی گئی کہ اس حوالے سے 2 ہفتوں میں سپریم کورٹ میں جامع رپورٹ جمع کروائی جائے اور 3 ہفتے بعد کیس کی سماعت میں پی آئی اے، ایئر بلیو، سرین کے چیف ایگزیکٹو افسران کو پیش ہو کر اپنی ایئرلائنز سے منسلک پائلٹس کی پیشہ ورانہ قابلیت کے حوالے سے رپورٹس جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔
سی اے اے اور پی آئی اے کی ساکھ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے ’لائسنس دینے اور ایوی ایشن ریگولیٹر کی جانب سے حفاظتی نگرانی میں سنگین خامیوں‘ پر تحفظات کا اظہار کیا۔
بعد ازاں 26 جون 2020 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے کہا تھا کہ کمرشل پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آیا اور یہ صرف قومی ایئرلائن سے متعلق نہیں ہے۔
16 جولائی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا تھا کہ پائلٹس کو جاری کیے گئے تمام لائسنس درست ہیں۔
6 اگست 2020کو پی آئی اے کے معطل 28 پائلٹس بحال ہوگئے تھے، دسمبر 2020 تک 110 پائلٹس کو بحال کردیا گیا تھا۔