اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جاری ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کر رہا ہے۔بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل اور اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاون سینئر قانون دان منیر اے ملک روسٹرم پر آئے۔ عدالتی معاون سینئر قانون دان منیر اے ملک نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کارروائی کی مخالفت کر دی۔منیر اے ملک نے عدالت میں کہا کہ آخری شخص ہوں گا جو یہ تسلیم کروں کہ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیلورٹ پر اثرانداز ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز پر کوئی تقریر اثر انداز نہیں ہوسکتی،الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے۔
ایک معافی پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے دوسرا کنڈکٹ پر۔یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا۔ عدالتی معاون منیر اے ملک نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس لینے سے ہی پورے پاکستان کو جو پیغام جانا چاہیے تھا وہ چلا گیا ہے۔اس سے قبل کی۔سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت کو گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا۔
ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔عدالت کی آبزرویشن کے مطابق ہم نے جواب کرایا۔ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیسز کے بعض حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں۔ عدالت کو بتاؤں گا کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا۔
جوڈیشل، سول اور کریمنل 3 طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے کیسز توہین عدالت کی کرمنل پروسیڈنگ نہیں تھیں،انہوں نے عدالت کے کردار کو سکینڈلائز کیا تھا۔ توہین عدالت کی کرمنل پروسیڈنگ زیادہ سنگین معاملہ ہے۔عمران خان کی کرمنل توہین ہے۔آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے۔
عمران خان نے ایک زیر سماعت مقدمے میں جج سے متعلق الفاظ استعمال کیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو سوچ کر جواب دینے کی ہدایت کی تھی ،،کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس کیس سے ماتحت عدلیہ کا احترام اور مورال جوڑا ہے۔ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔گزشتہ سماعت پر کیس کی سنگینی اور حساسیت کا بتایاگیاتھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا۔
اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اسکا طریقہ کار قانون میں موجود ہے۔توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بہت اہم ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دییے کہ سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کی پبلک مقامات پر تذلیل کرتے ہیں۔ اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟کیا یہ ٹون کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنے جواب میں وضاحت دینے کی کوشش کی۔کیا سابق وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا۔پچھلی بار بھی سمجھایا تھا کہ ایک شخص کی حیثیت جرم کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے لیے اہم ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں۔ شوکاز میں صاف لکھا ہے کہ عمران خان نے کریمنل، جوڈیشل توہین کی۔
آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو بھی مبینہ نہیں لکھا ،معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔جسٹس بابر ستار نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کی۔وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپیریم کورٹ، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابلِ عزت ہیں۔ ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندہ ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ماتحت عدالت کے ججز ہم اور سپریم کورٹ کے ججز سے زیادہ اہم ہیں۔
خاتون جج لاہور جا رہی ہونگی موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے، کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟۔ آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کی عمران خان جلسے میں خاتون جج کو دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں خود پر شرم آنی چاہیے۔
بطور لیڈر آپ کے الفاظ کے اثرات ہیں۔آپ ان اثرات کو جانتے ہوئے بھی جلسوں میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم پر تنقید ہوتی رہی ہے ،ہورہی ہے ہم نے کبھی توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی۔ ہم آپ کو بار بار کہہ رہے کہ یہاں حالات مختلف ہیں۔ہمارے بارے میں ’شرمناک ‘ لفظ کہ دیتے تو ہم برا نہ مناتے۔ضلعی عدالت کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج کو دھمکی سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔
آپ توجیہات پیش کرکے مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں۔جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں ہم توجیہات پیش نہیں کر رہے،صرف وضاحت کر رہے ہیں۔جسٹس بابر ستار نےحامد خان ایڈووکیٹ سے سوال کیا کہ اگر ہم نے عمران خان کے خلاف فیصلہ دیا اور ان کو ہمارا فیصلہ قبول نہ ہوا تو کیا ہمارے سامنے کھڑے ہو کر یا اگلے جلسے میں ہم پانچ ججز کو کہیں گے کہ میں تمہارے خلاف ایکشن لوں گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسجد نبوی میں حکومتی ارکان کے خلاف نعرے بازی کا بھی حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، سیاسی لیڈرز پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہمیں آخری نبی حضرت محمد ﷺ اور فتح مکہ پر درگزر سے سیکھنا چاہیے۔