اسلام آباد(سچ خبریں) سپریم کورٹ نے آزادانہ تفتیش کے معاملات میں مداخلت کے تاثر پر لیے گئے ازخودنوٹس کی سماعت 27 مئی 2022 ء تک کیلئے ملتوی کر دی۔
عدالت عظمی نے ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی ٹرانسفر و پوسٹنگ روک دی جبکہ نیب ،ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے بھی روک دیا اور ہدایت کی کہ مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے،ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کرنے کے بعد سیل کردیا جائے اورمجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔
عدالت عظمی نے چیئرمین نیب،ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، سیکرٹری داخلہ ،تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز ، ایف آئی اے اور نیب کے لیگل ڈائریکٹر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے تمام افسران کو تحریری جوابات جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے معاملہ پر سماعت کی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت کے رو برو پیش ہوئے ۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ازخود نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ازخود نوٹس کیس میں تیارکی گئی پیپر بک میں مختلف اخبارات کے تراشے شامل ہیں،بتایا جائے ہائی پروفائل کیسز میں افسران کے تقرر تبادلے کیوں کیے گئے،ہم نے پراسیکیوشن برانچ کے شفاف اور آزادانہ کام کو یقینی بنانا ہے، ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا،ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا،سو موٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا،ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا گیا ،پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوشن کو کیوں ہٹایا گیا، جاننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ثناءاللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں ،ڈی جی ایف آئی اے اچھا کام کررہے تھے، کے پی کے میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی، ڈائریکٹر ایف آئی اےڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا،ڈاکٹر رضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا۔انہوں نے کہا کہ اخبار کی خبر کے مطابق ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے تین ہزار افراد کو فائدہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرے میں امن اور اعتماد کو برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے۔اقدام کا مقصد کسی کو ملزم ٹھہرانا یا شرمندہ کرنا نہیں ہے بلکہ فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کیلئے ہے،چاہتے ہیں آرٹیکل 10 اے، 4 اے اور 25 پر عمل کیا جائے،ہم متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کررہے ہیں، وضاحت کریں کہ مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے؟ امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی،اپریل اور مئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے،خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا،نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے، اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں،جج کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے، ججز کو بڑا محتاط ہونا چاہیے، ججز کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں ۔
اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے ان معاملات کی تردید نہیں کی، ایف آئی اے کا موقف ہے یہ معمول کے امورکار ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایف آئی اے میں ٹرانسفر پوسٹنگ ،تحقیقاتی اور پراسیکوشن برانچ میں تبدیلیوں اور نیب کی تحقیقاتی اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے کی گزشتہ چھ ہفتوں میں تحقیقات ، ان کی پراسیکوشن برانچز میں تبادلوں و تعیناتیوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں اور جس طریقہ کار سے یہ نام ای سی ایل سے نکالے گئے، اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں،اگر ای سی ایل میں نام ڈالنے اور نکالنے کا طریقہ کار تبدیل ہو ا ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں ۔ سپریم کورٹ نے ماضی کی ٹرانسفر پوسٹنگ پر اٹارنی جنرل کو خود سے جواب دینے کی اجازت دے دی ۔عدالت عظمی نے کہا کہ فوجداری نظام عدل کی شفافیت اور ساکھ کو برقرار رکھا جائے، عدالتی کارروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔