عدالت عظمیٰ میں جب سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات کی جا رہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باہر نکلے، ہم آپ کوسننا چاہتے ہیں، بتائیں کیا آپ 9 مئی کو عدالت میں بائیومیٹرک روم میں موجود تھے، جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتاہے تو اس کا مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرنڈرکرتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی، عمران خان کی گرفتاری کو ہم واپس کر رہے ہیں اور عمران خان کو ہدایت کی ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔
اس سے قبل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان کی پیشی پر کارکنوں کو عدالت آنے کی اجازت نہیں ہوگی، آج ہی مناسب حکم جاری کریں گے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عمران خان نے کارکنوں سے پرامن رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، کارکنان پرامن ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں انتشار نہیں چاہتے، ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، کل وکلا نے مجھے بتایا انتشار ہو رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ عدالت میں لوگ انصاف کے لیے آتے ہیں، مجھے ڈنڈے مارے گئے، ایسے تو قاتل کے ساتھ نہیں کیا جاتا، جب اغوا کیا گیا تو یہ واقعات میرے لیے حیران کن تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے سر پر ڈنڈے مارے گئے، مجھے علم ہی نہیں ملک میں کیا ہو رہا تھا، مجھے ایسے پکڑا گیا جیسے دہشت گرد ہوں، میں مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہوگیا۔
سپریم کورٹ میں جب سماعت کا آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں شامل سینئر وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ایک کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ آئے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے؟
وکیل حامد خان نے بتایا کہ عمران خان بائیومیٹرک کے لیے موجودہ تھے جب ان پر دھاوا بولا گیا، رینجرز نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور پر تشدد طریقے سے انہیں گرفتار کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر ہوئی لیکن سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی، جو مقدمہ مقرر تھا وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ بائیومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہی بات ہے کہ عمران خان عدالت کے احاطے میں داخل ہوچکے تھے، کسی کو انصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا احترام ہوتا ہے، کورٹ کی پارکنگ سے نیب نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے اس گرفتاری کو واپس کروایا تھا جس کے بعد نیب نے یقین دہانی کروائی تھی کہ احاطہ عدالت سےگرفتاری نہیں ہوگی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 90 رینجرز اہلکار احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلا کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کے لیے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینی چاہیے تھی۔
وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پر حملہ ہوا، ان سے سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو طلب کرتے ہیں، وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی سب سے اہم ہے، ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب نے تو ہین عدالت کی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہر کوئی چاہتا ہے دوسرا قانون پر عمل کرے، یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔
وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ تفتیشی افسر کی موجودگی میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا وارنٹ گرفتاری چیلنج کیے گئے تھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ہم گرفتاری کے طریقہ کار اور عدالت کی بے توقیری سے متعلق معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نے بتایا وارنٹ ابھی تک عمل درآمد کے لیے انہیں موصول نہیں ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی عدالتی پیشی پر بھی اچھے عمل کی توقع ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا اسے رکنا چاہیے تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ دینا چاہیے جن کا اطلاق سب پر ہو، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج میانوالی کی ضلعی عدلیہ پر حملہ ہوا ہے، معلوم کریں یہ حملہ کس نے کیا ہے؟ ضلعی عدلیہ پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تو یہاں نہ ہوتے، ان کے ساتھ کوئی کارکن یا جتھہ عدالت میں نہیں تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا نیب نوٹسز کا جواب بھجوایا گیا تھا۔
وکیل نے بتایا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پرگرفتاری نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل عمران خان سے دریافت کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جو چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا، یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا، عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کو دینا لازمی ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟
وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو ارسال کیا تھا لہٰذا نیب کا جاری کردہ وارنٹ غیرقانونی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے وارنٹ جاری کرنے کا نہیں بلکہ وارنٹ پر تعمیل کروانے کا طریقہ اصل معاملہ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے، عمران خان نیب میں شامل تفیش کیوں نہیں ہوئے؟ کیا نیب نوٹس میں ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون پر عمل کی بات نیب کرتا ہے، خود نہیں کرتا، نیب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ واضح رہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا، نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر بھی ضمانت کروا لیتے ہیں، مارچ کے نوٹس کا جواب مئی میں دیا گیا، کیا عمران خان نے قانون نہیں توڑا؟
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک ہی نوٹس موصول ہوا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عمل درآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف کے حق تک رسائی کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا ہے، کیا نیب نے رجسٹرار کی اجازت لی تھی؟
پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں، نیب نے وارنٹس کی تعمیل کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا، انہوں نے عمل درآمد کر وایا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا عدالتی کمرے میں عمل درآمد وزارت داخلہ نے کیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے حقائق معلوم نہیں، آج ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی تعمیل کوئی نجی شخص بھی کروا سکتا ہے، وارنٹ خود بھی اپنے وارنٹس پر عمل درآمد کرواتا رہتا ہے، کیا نیب نے عدالت کے اندر گرفتار کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیے تھے؟
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی، کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا، وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا تھا؟
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 9 مئی کو کیس کی سماعت کی وجہ سے 8 مئی کو وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے وزارت داخلہ کو کہا اور خوش قسمتی سے دوسرے دن وہ آرہا تھا، ساتھ ہی استفسار کیا کہ جب درخواست گزارکو گرفتار کیا تھا تو کیا اس وقت اپ کا کوئی نمائندہ موجود تھا؟
نیب پراسیکیوٹر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل کے لیے حکومتِ پنجاب کو خط کیوں نہیں لکھا، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔
سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے ہیں، اس لیے نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بقول وارنٹ کی گرفتاری کا طریقہ وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا، کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا؟
تاہم نیب افسران عمران خان کی گرفتاری کے وقت تفتیشی افسر کی موجودگی کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے، ہمیں قانون نہ سکھائیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کو کس فورس نے گرفتار کیا، ہم یہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ گرفتار کس فورس نے کیا؟
وکیل نیب نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئی جی اسلام آباد نے بتایا تھا کہ انہوں نے گرفتار کیا، ہائی کورٹ کے آرڈر کے مطابق گرفتاری پولیس کی نگرانی میں کی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ پولیس نے رینجرز کی مدد سے گرفتاری کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کر رہی تھی، رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کے لیے موجود تھے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی، رینجرز اہلکار عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے موجود تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پابندی نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو ساتھ آنے کی کال دیتے تھے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق پر اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے ساتھ نیب جو کر رہا ہے وہ معمول بن چکا ہے، نیب ایک آزاد ادارہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے 8 مئی کو رینجرز تعینات کرنے کی تحریری طور پر درخواست کی تھی لیکن رینجرز تعینات کرنے کی درخوست وارنٹس پرعمل درآمد کے لیے نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم سرینڈر کرے اور گرفتار کیا جائے تو عدالت گرفتاریوں کے لیے آسان مقام بن جائے گا، ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گی۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدالتیں آزاد ہوتی ہیں، آزاد عدلیہ کا مطلب شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سال 2012 سے 2022 تک عدالتوں میں 31 قتل ہوئے تھے، ایسا ہونے دیا تو نجی تنازعات بھی عدالتوں میں ایسے نمٹائے جائیں گے، بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایکشن لیا اور اگلے سال کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاری پر ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کے لیے دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہو رہا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری کی قانون حثیت پر رائے نہیں دینا چاہتے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے، کیا مناسب نہیں ہوگا عمران خان کی درخواست ضمانت پر عدالت فیصلہ کرے؟
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ملک میں بہت کچھ ہوچکا ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو، گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔
دورانِ سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو عمران خان کو ایک گھنٹے تک پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ احتساب عدالت نیب کو ان کا جسمانی ریمانڈ دے چکی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایسی گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عمران خان کی پیشی پر کارکنوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی، عدالت معاملے پربہت سنجیدہ ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کل تک مہلت دینے کی استدعا کی جسے چیف جسٹس نے مسترد کر دیا اور ریمارکس دیے کہ عدالت آج مناسب حکم جاری کرے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔
رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
عمران خان کو 9 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا۔
عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے ان کو حراست میں لے لیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا جس کے فیصلے میں ان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا تھا۔
نیب کا اصرار تھا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی تقاضے پورا کرنے کے بعد کی گئی۔
نیب نے کہا کہ انکوائری/تفتیش کے عمل کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ کو متعدد نوٹس جاری کیے گئے کیونکہ وہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی تھے، تاہم انہوں نے یا ان کی اہلیہ کی جانب سے کسی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا۔
گرفتاری کے اگلے روز عمران خان کو پولیس لائنز میں منتقل کردہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
عدالت میں نیب نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم عدالت نے انہیں عمران خان کا 8 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا۔