اسلام آباد(سچ خبریں)وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سب نے ٹیکس دینا ہے کوئی مقدس گائے نہیں‘پاکستان کے ٹیکس نظام میں تضادات موجود ہیں‘ایک ٹیکس دودوبار لیا جارہا ہے۔ماضی میں جس کو بھی موقع ملتا وہ ٹیکس کو چھپانے کی کوشش کرتا‘ اس سے ترقی کے سفر پر اثرات مرتب ہوئے‘ اس وقت ہمارے پاس جاری اخراجات کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے جبکہ ترقیاتی اخراجات کیلئے قرضے لینا پڑتے ہیں۔
زیادہ اخراجات کرنے والوںکو ٹیکس نوٹسزدیں گے ‘پائیدار ملکی ترقی اور معاشی نمو کیلئے آئندہ 6 برسوں میں جی ڈی پی کی شرح سے ٹیکسوں کی وصولی کو 20 فیصد تک بڑھانا ہو گا۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹیکس انتظامیہ اور ٹیکس کے نظام میں ہم آہنگی کیلئے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو یہاں ٹیکس سال 2019ء کیلئے ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کے اجراء کے موقع پر منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔شوکت ترین نے کہا کہ قوم کی نظریں ارکان پارلیمان پر ہوتی ہیں۔
جب قوم کو معلوم ہو گا کہ ارکان پارلیمان شفاف طریقہ سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو شہری بھی اسی جذبہ کے ساتھ ٹیکس ادا کریں گے، اس سے ٹیکس کے پورے نظام میں شفافیت آئے گی‘ ٹیکس ریونیو کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرتا، ماضی میں جس کو بھی موقع ملتا وہ ٹیکس کو چھپانے کی کوشش کرتا، اس سے ترقی کے سفر پر اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس جاری اخراجات کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے جبکہ ترقیاتی اخراجات کیلئے قرضے لینا پڑتے ہیں، اگر ٹیکس کا شفاف اور مؤثر نظام موجود ہو تو اس طرح کے مسائل سے چھٹکارا ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ٹیکس نظام میں تضادات موجود ہیں‘وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کے خیال میں انکم ٹیکس اور کھپت ٹیکس (جی ایس ٹی) ہونا چاہئے، باقی ٹیکسوں کی ضرورت نہیں ہو گی، ہمیں ترقی پذیر ٹیکسیشن کی طرف جانا ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف آمدن پر ٹیکس ہونا چاہئے‘جیسے جیسے ٹیکس کے دائرہ کار میں وسعت آئے گی ٹیکسوں کی شرح میں کمی بھی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ نادرا کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے ٹیکس گزاروں کی حقیقی آمدن کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔جنوری میں اس حوالہ سے لوگوں کو نوٹس جاری ہوں گے تاہم وزیر خزانہ واضح کیا کہ اس میں ہراسانی نہیں ہو گی۔