راولپنڈی: (سچ خبریں) راولپنڈی کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ کیس میں 4 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے ہیں۔
میڈیا کے مطابق بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں کی، عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پیش نہیں ہوئیں۔
وکیل صفائی لطیف کھوسہ، نعیم پنجوتھا، عمیر نیازی، شیراز رانجھا جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (نیب) کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی، امجد پرویز، عرفان بھولا عدالت میں پیش ہوئے، سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
نیب کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس میں 9 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا جن میں سے 4 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے، سیکشن افسر توشہ خانہ بن یامین اور ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب قیصر محمود کا بیان قلمبند کیا گیا۔
ساتھ ہی جوائنٹ ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی) ساجد خان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وزارت خارجہ محمد فہیم کا بھی بیان قلمبند کر لیا گیا۔
بعد ازاں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے کل مزید گواہوں کو طلب کرلیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کمرہ عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امجد خان کو ٹارچر کیا گیا تاکہ وہ الیکشن نہ لڑسکے اور اس سے پارٹی کو چھڑوایا جائے، امجد خان آئی سی یو میں ہے، یہ انتہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے تھری ٹیئرز میں سے دو ٹیئرز سے پارٹی چھڑوا دی گئی، اس وقت ہمارا انڈر 16 کھیل رہا ہے، مسلم لیگ (ن) کو انہوں نے 2002 میں اشارہ ہی کیا تھا کہ سب (ق) لیگ میں چلے گئے۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز سرٹیفائیڈ منی لانڈرز ہیں، پانامہ کے اندر دیکھیں اربوں روپے کے فلیٹس ثابت ہوچکے ہیں، شہباز شریف کے خلاف 24 ارب کے ثابت شدہ اسکینڈلز کو معاف کردیا گیا، حسن نواز نے 18 ارب میں ون ہائیڈ پارک کی پراپرٹی ملک ریاض کو بیچی، ان کے کیسز اس لیے معاف کیے گئے کہ انہوں نے غلامی قبول کرلی۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ غلاموں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، جمہوریت اور قانون کی بالادستی اکٹھے چلتی ہے، ہم ایک کیس سے نکلتے ہیں تو دوسرے میں ڈال دیتے ہیں، اس غلامی سے موت کو بہتر سمجھتا ہوں، غلامی کو شرک سمجھتا ہوں۔
اس موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ کیا ڈائیلاگ ہو سکتا ہے؟
بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ہم سے کوئی مذاکرات کرے گا تو ہی مذاکرات ہوں گے، کوئی کرتا ہی نہیں ہے، میرے جیل میں رونے کی بات کرنے والے کو بتا دو کہ اگر رونا ہوتا تو بہت پہلے ہاتھ کھڑا کردیتا، اس ملک کی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوں، الیکشن نہ لڑسکا تو سپریم کورٹ جاؤں گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ پر بڑی ذمہ داری ہے، ایک ہی امید باقی ہے، پوری دنیا سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، باقی سب ادارے مل چکے ہیں، نیب کو کوئی شرم نہیں ہے، نواز شریف اور زرداری نے توشہ خانہ سے بلٹ پروف گاڑیاں حاصل کیں، نواز شریف نے 6 لاکھ میں بلٹ پروف گاڑی لی، زرداری نے 3 گاڑیاں لیں، ان کے توشہ خانہ کیسز اس لیے بند ہیں کہ انہوں نے کہا ہم حاضر ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔
6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
9 جنوری کو توشہ خانہ کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔
گزشتہ برس اگست میں سابق حکمران اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، بعدازں 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا، فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔