اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے 152 فیصد زائد قیدیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، ان میں سے 75 فیصد ٹرائل کے منتظر ہیں یا ان کا ٹرائل چل رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ’پاکستان کی جیلوں کا منظر نامہ: رجحانات، اعداد و شمار اور ترقی‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قیدیوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، مضر صحت زندگی کے حالات، صاف پانی تک ناکافی رسائی، غذائیت سے بھرپور خوراک اور صحت کی دیکھ بھال، استحصالی مزدوری، اہل خانہ اور قانونی مشیروں کے ساتھ محدود رابطہ اور شکایت کے مؤثر طریقہ کار کا فقدان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم والے افراد کو زیادہ قید میں رکھنا اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر)، نیشنل اکیڈمی آف جیل ایڈمنسٹریشن اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد میں معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 3 ہزار 604 کے مقابلے میں 2024 میں بڑھ کر 3 ہزار 646 ہوگئی۔
رپورٹ میں جامع عدالتی اصلاحات اور سزا کے متبادل اقدامات کو اپنانے کی سفارش کی گئی ہے، اس میں جیلوں کے گہرے بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان جیل قوانین کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 2 ہزار 26 ہے جنہیں 128 آپریشنل مراکز (جیلوں) میں رکھا گیا ہے، جن میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے قیدی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد 152.2 فیصد ہے، جب کہ کچھ جیلیں اپنی سرکاری گنجائش سے 200 سے 300 فیصد اضافے تک کام کر رہی ہیں۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 24 سال میں قیدیوں کی مجموعی تعداد میں 29 فیصد اضافہ ہوا، جو سال 2000 میں 78 ہزار 938 سے بڑھ کر سال 2024 میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 ہوگئی، اعداد و شمار کے مطابق 2018 سے گزشتہ سال کے مقابلے میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں 11.43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا، اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار 580 سے زائد نابالغ قیدی قید ہیں، جن میں خواتین نابالغ قیدی کُل نابالغ قیدیوں کی تعداد کا صرف 0.7 فیصد ہیں۔
اپریل 2024 تک ملک کی جیلوں میں 1100 سے زائد غیر ملکی قیدی تھے، جن میں سب سے زیادہ تعداد افغان شہریوں کی ہے، اس کے علاوہ بھارتی، بنگالی اور نائجیریا کے شہری بھی قید ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل میں سرکاری گنجائش صرف 2 ہزار 400 ہونے کے باوجود 8 ہزار 518 قیدی موجود ہیں، جو اس کی گنجائش سے ڈھائی سو فیصد زائد ہے۔
رپورٹ میں خواتین اور نابالغ قیدیوں کے لیے خصوصی سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے، خواتین کے لیے 4 جیلوں میں سے 3 سندھ (کراچی، حیدرآباد اور سکھر) میں ہیں، جب کہ پنجاب میں خواتین کے لیے صرف ایک جیل ہے، بصورت دیگر، خواتین کو مردوں کی جیلوں کے اندر الگ بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ نابالغ قیدیوں کے لیے ایسے 5 مراکز میں سے 3 سندھ میں اور 2 پنجاب میں ہیں۔
چاروں صوبوں کی جیلوں کی آپریٹنگ صلاحیت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں 173.6 فیصد، سندھ میں 161.41 فیصد، بلوچستان میں 115.60 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 102.50 فیصد کے ساتھ آپریٹنگ صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیر سماعت مقدمات کے قیدیوں سے بھری جیلوں (یو ٹی پیز) کے لیے یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، جس کی وجہ غیر مؤثر ضمانتی طریقہ کار، طویل عدالتی عمل اور حراستی اقدامات پر حد سے زیادہ انحصار ہے، کیونکہ انڈر ٹرائل قیدیوں کی کُل تعداد 74 ہزار 918 ہے، جو جیلوں کی کُل تعداد کا 73.41 فیصد ہے، جس میں گزشتہ 8 سال میں 8 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ گنجائش کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، ملک کو معمولی جرائم کے لیے غیر حراستی سزا کے اختیارات کو اپنانے اور پرول اور پروبیشن سسٹم کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیونٹی کی بنیاد پر متبادل سزا، جیسے کمیونٹی سروس کو بحالی کے نقطہ نظر کے طور پر ترجیح دی جانی چاہیے۔ مزید برآں، نفسیاتی طور پر معذور افراد کو ذہنی صحت کی سہولتوں کی طرف موڑ دیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کو قید کے بجائے علاج ملنا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2019 کے درمیان 516 افراد کو پھانسی دی گئی، جب کہ دسمبر 2019 کے بعد سے ملک میں کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔
تاہم اس عرصے کے دوران سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد ابتدائی طور پر کم ہوئی، لیکن اب دوبارہ بڑھ رہی ہے، کیونکہ 2023 میں 3 ہزار 604 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی، جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 3 ہزار 646 ہوگئی ہے جو واضح اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ 3 سال (2022 سے 2024) کے دوران ملک بھر میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ سندھ اور بلوچستان میں 2022 کے بعد سے سزائے موت پانے والی کوئی خاتون قیدی نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف سندھ میں 2024 میں منشیات سے متعلق جرائم میں کم از کم 3 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔
سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے 2014 میں زیر التوا فوجداری مقدمات کو کلیئر کیا تھا، جس کے نتیجے میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد 2012 میں 7 ہزار 164 سے کم ہو کر 2020 میں 2 ہزار 976 رہ گئی تھی۔