اسلام آباد: (سچ خبریں) جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے ساڑھے 3 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کرلی جبکہ ہائیکورٹ کے 3 ججوں میں سے 2 کی ترقی منظور اور ایک امیدوار کا نام مسترد کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی، اجلاس میں 5 ارکان میں سے وفاق کے 2 نمائندوں سمیت 4 ارکان کی اکثریت نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کے ناموں کی منظوری دے دی جوکہ دونوں اپنی متعلقہ عدالتوں کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں، جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی کا نام خارج کردیا گیا۔
اجلاس میں مذکورہ منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے ارکان کا حجم 15 ہوگیا ہے، ایک فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے 2 مزید ارکان درکار ہوں گے۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے اختر حسین نے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ان تینوں ججوں کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔
تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان نامزدگیوں کی حمایت کی۔
سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر موجود جسٹس محمد شفیع صدیقی کا نام اس وقت خارج کردیا گیا جب اجلاس کے دوران ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے توجہ دلائی کہ سندھ ہائی کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج جسٹس عقیل احمد عباسی زیادہ قابل ہیں اور ان کی کارکردگی دیگر کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، اجلاس کے آخر میں جسٹس اطہر من اللہ کے نام پر غور کیا گیا اور اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔
اب یہ سفارشات جوڈیشل کمیشن کی منظوری کے 14 روز کے اندر پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائیں گی۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بیشتر وقت اس گرما گرم بحث میں گزر گیا کہ جب جوڈیشل کمیشن کے 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں ان ناموں کو پہلے ہی مسترد کیا جا چکا تھا تو وہی نام دوبارہ کیوں تجویز کیے گئے۔
ایک موقع پر اٹارنی جنرل کو وضاحت کرنا پڑی کہ 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں انہوں نے امیدواروں کے نام واضح طور پر مسترد کرنے کے بجائے اجلاس ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی۔
ملاقات سے چند روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور خط کے ذریعے چیف جسٹس سے ان 3 جونیئر ججوں کے نام واپس لینے کی درخواست کی تھی جنہیں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔
علاوہ ازیں وکلا برادری، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل نے بھی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے 3 جونیئر ججوں کے نام ‘مسترد’ کیے جانے کے کئی ماہ بعد دوبارہ ان ناموں پر غور کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، وکلا برادری نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ 24 اکتوبر (گزشتہ روز) ہونے والے اجلاس میں اگر ان ناموں کو منظور بھی کرلیا جائے تو وہ اسے چیلنج کریں گے۔
اگرچہ بار کے نمائندوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں تھا تاہم انہوں نے دیگر امیدواروں کی نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ یہ نامزدگی سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے دیگر ججوں کی حوصلہ شکنی کرے گی اور ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرے گی۔
گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے جلد از جلد تقرر کے لیے معیارات مرتب کرنے کے بعد جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے انعقاد پر بھی غور کیا گیا، اس کے علاوہ رولز کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس کے بجائے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سپرد کرنے کی تجویز دی گئی۔
9 مارچ کو رولز کمیٹی کے آخری اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے ججوں کے تقرر کے عمل میں معروضیت کو برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کے لیے جائزوں اور ججوں کے انتخاب کا سادہ اور سیدھا معیار طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
وکلا کی ریگولیٹری باڈی ’پاکستان بار کونسل‘ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز 2010 میں ترامیم اور ترقی کے معیار طے کرنے سے پہلے اعلیٰ عدالتوں میں کسی بھی نئی ترقی کے خلاف تھی۔
دریں اثنا سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین ذوالفقار جلبانی نے ہائی کورٹس کے جونیئر ججوں کی نامزدگی کو مسترد کردیا اور جوڈیشل کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ ان نامزدگیوں پر نظر ثانی کرے اور ججوں کی ترقی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے قوانین میں ترمیم کرے۔
انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ترقی الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کی جانی چاہیے، گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں ناموں کی منظوری جانبدارانہ ہے، اگر جوڈیشل کمیشن نے ان تجاویز پر نظر ثانی نہیں کی تو سندھ بار کونسل ان کے خلاف ملک گیر مہم شروع کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ بار کونسل کی جانب سے جونیئر ججوں کی نامزدگی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔