اسلام آباد(سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بارے میں تبصرے کے دو روز بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے بارے میں کچھ بھی بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہوسکتا ہے۔
اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘میں یہ واضح کردوں کہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، اس تنازع کا حتمی تصفیہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی قرارداد میں ہے جس میں اقوام متحدہ کے تعاون سے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے’۔
یاد رہے کہ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران اپنے متنازع ریمارکس میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا بھارت کا داخلی معاملہ ہے’۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے انٹرویو کے ایک کلپ کے مطابق شاہ محمود قریشی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کو بھارت کے آرٹیکل 370 کے فیصلے سے کوئی مسئلہ نہیں ہےانہوں نے یہ بھی بتایا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو بھارت کی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت میں ایک بہت بڑا طبقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ اقدام بھارت کے لیے فائدہ مند نہیں۔وزیر خارجہ نے یہ بھی زور دیا کہ تمام معاملات صرف بات چیت کے ذریعے ہی طے پاسکتے ہیں کیونکہ جنگ ‘خودکشی’ ہوگی۔
جب ان سے سوال کیا گیا تھا کہ پاکستان کے لیے کیا ضروری ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ ‘آرٹیکل 35 اے، 1954 میں صدارتی حکم کے ذریعے آئین میں شامل آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں وکشمیر کے قانون سازوں کو ریاست کے مستقل رہائشیوں، ان کے خصوصی حقوق اور مراعات کی وضاحت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ ریمارکس ایسے موقع پر سامنے آئے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطوں کا آغاز ہوچکا ہے جسے اپوزیشن نے پاکستان کے مستقل مؤقف کے برعکس قرار دیا جس کے مطابق جب تک بھارت آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کرے گا تب تک تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو کس طرح بھارت کا داخلی معاملہ قرار دے رہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان اسے تسلیم نہیں کرتا، کشمیر سے متعلق کوئی بھی معاملہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کو غیر قانونی طور پر الحاق کرنے کی مودی کی کوشش پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یہ ایک منقسم خطہ ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘بیک چینلز فیصلے کرنے کے لیے نہیں ہیں، وہ تنازع میں اسٹریٹجک وضاحت کے حصول کے لیے ہیں، ہم جو دیکھ رہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت یا تو الجھن میں ہے یا کسی معاہدے میں ملوث ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے اور 35 اے کو منسوخ کرنا تھا جس سے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کر سکے گا جو آرٹکیل 370 سے منسلک ہے۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ کو ایک تبدیلی پر اعتراض ہے تو آپ کو دوسری پر بھی ہونا چاہیے، دونوں ہی حالات کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، امن کے لیے شرائط منصفانہ ہونی چاہئیں’۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے وزیر خارجہ کو بھی اپنے ریمارکس پر تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے آرٹیکل 370 کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینا کیا تاریخی یوٹرن نہیں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کے آرٹیکل 370 کے فیصلے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، شاہ محمود کہتے ہیں یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے’۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا تھا کہ ‘اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے تاریخی مؤقف کو چھوڑنے پر متفق ہوگیا ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے’۔انہوں نے کہا تھا کہ ‘اگر بھارت کے زیر تسلط کشمیر بھارتی وفاق کا حصہ ہے اور ہم اس کو ایسے قبول کرتے ہیں تو پھر ہمارے تاریخی مؤقف کا کیا ہوا؟’