?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے منگل کے روز چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر کے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کی، جس میں ’ہائی کورٹ کو لاحق عدالتی بیماریوں‘ کو اجاگر کیا گیا، یہ سب فل کورٹ میٹنگ سے قبل سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا عدالتی سال منگل کو شروع ہوا جس میں چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے فل کورٹ میٹنگ بلائی جس میں تمام جج شریک ہوئے، حکام کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے بدھ کو دوپہر 2 بجے ایک اور فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے اور تمام ججوں کو شرکت کے باضابطہ نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
اگرچہ تفصیلی ایجنڈا منظر عام پر نہیں لایا گیا، تاہم عام طور پر ایسے اجلاس عدالتی سال کے آغاز پر عدالت کی کارکردگی کا جائزہ لینے، انتظامی امور پر بات کرنے اور آئندہ مہینوں کے لیے ترجیحات طے کرنے کے لیے بلائے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام موجودہ ججز عدالتی اور انتظامی امور پر اجتماعی غور و فکر کریں گے۔
تاہم ذرائع کے مطابق جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی جانب سے فل کورٹ اجلاس سے ایک روز پہلے لکھے گئے خطوط ساتھی ججوں اور ہائی کورٹ کے حکام کے لیے حیران کن ثابت ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ججوں نے فل کورٹ کے ایجنڈے پر نظر ثانی کی درخواست کی، اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اصلاحی تجاویز دیں، یہ خطوط دیگر ججوں کے ساتھ بھی شیئر کیے گئے۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو دستیاب جسٹس بابر ستار کے خط میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ اجلاس ’بہت تاخیر سے بلایا گیا ہے لیکن یہ خوش آئند قدم ہے تاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامیہ میں سرایت کرنے والی غیر قانونی سرگرمیوں کو درست کیا جا سکے‘، اور نشاندہی کی کہ یہ عمل سابق چیف جسٹس کے دور میں شروع ہوا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں تاکہ مندرجہ ذیل معاملات کو فل کورٹ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے، یہاں صرف مختصر وضاحت یا سوالات شامل کیے ہیں تاکہ ان کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے، کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوشش لاحاصل ہے کیونکہ آپ کے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلے کے بعد سے عدالتی آزادی، ادارہ جاتی اصولوں اور ججوں کے درمیان ہم آہنگی کو نظر انداز کیا گیا ہے، لیکن امید نہیں چھوڑنی چاہیے کہ انسان اپنی ذمہ داری پہچان کر درست اور شائستہ کام کرے گا‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا بنیادی حقوق کے محافظ کے طور پر کردار کم ہونا
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون کی حکمرانی والے نظام میں عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کو ریاستی طاقت کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج واقعی یہ آئینی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں اور کیا عوام انہیں بنیادی حقوق کے محافظ اور مدافع کے طور پر دیکھتے ہیں؟
ماتحت عدلیہ پر نگرانی اور کنٹرول میں ناکامی
اس بارے میں جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا ہائی کورٹ اپنی یہ ذمہ داری پوری کر رہی ہے کہ ماتحت عدالتوں پر اس طرح نگرانی کرے کہ وہاں کے جج اپنے فرائض خوف کے بغیر انجام دے سکیں، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203 میں درج ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’کیا اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ کو ایسے ہی میوزیکل چیئر کے کھیل کی طرح چلنا چاہیے جہاں زیادہ تر جج ڈیپوٹیشن پر ہوں یا اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک آزاد اور باوقار ضلعی عدلیہ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے؟‘
مقدمات کی تقسیم اور روسٹر کی تیاری میں شفافیت کا فقدان
اس حوالے سے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ادارہ جاتی اصولوں کے احترام کے برعکس، جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایسے روسٹر بنائے جن میں سینئر پیونی جج سمیت سینئر ججوں کو ڈویژنل بینچ کی سربراہی سے باہر رکھا گیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’کیا مقدمات کی تقسیم چیف جسٹس کی خواہشات پر منحصر ہونی چاہیے یا اس میں یہ شفافیت ہونی چاہیے کہ کون سا مقدمہ کون سا جج سنے، اور کیا یہ تقسیم ججوں کی مہارت کے مطابق ہونی چاہیے؟ ہم اپنی عدالتی تحریروں میں روزانہ لکھتے ہیں کہ سرکاری افسر بادشاہ نہیں ہوتے اور ان کے انتظامی اختیارات نہ تو لامحدود ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں بدنیتی پر مبنی طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے، آپ کے دور میں جاری ہونے والی کاز لسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر مقدمات تبادلہ شدہ ججوں اور ایڈیشنل ججوں کو دیے جا رہے ہیں، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مستقل ججوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جنہوں نے آپ کے اسلام آباد تبادلے کو ناپسند کیا تھا، کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی اختیارات استعمال کرتے وقت یہ یاد نہیں رکھنا چاہیے کہ جج، بشمول چیف جسٹس، بھی عوامی عہدے دار ہیں، بادشاہ نہیں؟‘۔
عدالتی آزادی کو نقصان پہنچانے کیلئے انتظامی اختیارات کا استعمال
جسٹس ستار نے افسوس ظاہر کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کی قیادت میں ’ہم نے دیکھا کہ دفتر نے عدالتی احکامات کے باوجود مقدمات کی فہرستیں جاری کرنے سے انکار کیا، ہم نے دیکھا کہ مقدمات ایک عدالت سے دوسری عدالت منتقل کیے گئے باوجود اس کے کہ چیف جسٹس کے دفتر کو ایسا اختیار حاصل نہیں، اور حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ روسٹر ایسے بنائے گئے جن سے دو ججوں (بشمول میں) کو ان کے سنگل بینچ مقدمات سے محروم کر دیا گیا تاکہ انہیں غیر فعال کر دیا جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات وقتی طور پر کچھ ججوں کو غیر اہم بنا سکتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ’مذموم ہتھکنڈے‘ آمریت کے زمانوں میں بھی دیکھے گئے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا عدالتی آزادی کو اس طرح سبوتاژ کرنا جائز ہے؟
کمیٹیوں کی تشکیل سے ہائی کورٹ کے اجتماعی کردار کو نقصان پہنچانا
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایسی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیادہ تر سینئر ججوں کو انتظامی کاموں میں شریک نہیں کیا گیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’آپ نے ہائی کورٹ کے 2 سینئر ترین ججوں کو منتظم کمیٹی سے نکال دیا ہے جو کہ قواعد اور ادارہ جاتی اصولوں کے خلاف ہے جن پر ملک کی دیگر ہائی کورٹس بشمول لاہور ہائی کورٹ عمل پیرا رہی ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کمیٹیوں میں حالیہ ایڈیشنل ججوں اور دیگر صوبوں سے لائے گئے ججوں کو شامل کرنا ادارے کو مضبوط کرتا ہے اور ججوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے؟‘۔
چیف جسٹس کے دفتر کو مطلق العنان بنانے کے اختیارات کا استعمال
جج نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا سرکلر جاری کیا ہے جس میں ججوں کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے آپ سے این او سی لینے کا پابند کیا گیا ہے، گویا انہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا گیا ہو۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئین یا قانون چیف جسٹس کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیتا کہ وہ اپنے ہم منصب ججوں پر اس طرح حکومت کرے۔
انہوں نے لکھا کہ ’فل کورٹ اجلاس کے لیے جو ڈرافٹ قواعد آپ نے بھیجے ہیں ان میں بھی تمام انتظامی اختیارات چیف جسٹس کے دفتر میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، آپ نے شاید لارڈ ایکٹن کے الفاظ پڑھے ہوں کہ طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مطلق طاقت مکمل طور پر کرپٹ کر دیتی ہے، کیا چیف جسٹس کے دفتر کو ایک مطلق العنان دفتر میں بدلنا عدالتی آزادی کو مضبوط کرے گا جو ہمارے عدالتی فرائض کے لیے ضروری ہے؟‘۔
ججوں کی کارکردگی کا جائزہ اور فیصلوں کی رپورٹنگ
اس حوالے سے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جج سب سے زیادہ تنخواہ پانے والے سرکاری افسر ہیں اور انہیں اپنی کارکردگی پر سختی سے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی متفقہ اور شفاف طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے جس کے تحت ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے؟
انہوں نے کہا کہ ’آپ کے دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی کام کی انجام دہی سے متعلق ایسے بگاڑے ہوئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ کچھ جج انتہائی مؤثر طریقے سے کام کرتے ہیں جبکہ دیگر بالکل کام نہیں کرتے، اگر کوئی محقق یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کتنے اور کس نوعیت کے مقدمات ان ’کارکردگی دکھانے والے‘ ججوں کو دیے گئے اور دوسروں کو کتنے اور کس قسم کے مقدمات ملے، اور ان فیصلوں کی نوعیت، معیار اور طوالت کیا تھی جن کی بنیاد پر یہ اعداد و شمار بنائے گئے ہیں، تو حقیقت مختلف سامنے آ سکتی ہے‘۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا ہمیں کوئی متفقہ کارکردگی جانچنے کا معیار اور یہ رہنمائی وضع نہیں کرنی چاہیے کہ کون سے فیصلے رپورٹ کیے جائیں، تاکہ ہم دیانت داری سے اپنی کارکردگی بہتر کرنے اور اپنے آپ کو جوابدہ بنانے کی کوشش کریں، بجائے اس کے کہ دھوکہ دہی پر مبنی تشہیر میں لگے رہیں؟‘۔
خط کے آخر میں جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’آپ سمجھتے ہیں کہ ادارے بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں لیکن انہیں تباہ کرنے میں لمحے لگتے ہیں، ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پچھلے چند سالوں میں یہ ہوتے دیکھا ہے‘۔
’اگرچہ مجھے اس بات پر مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ میں نے تجربے کے بجائے امید کو ترجیح دی ہے، جب کہ میں نے یہ خط آپ کو اس لیے لکھا ہے کہ ادارے کے اندرونی مکالمے کو فروغ دیا جائے اور اس زوال کو روکا جائے جو اس عدالتی ادارے کو کچھ نہ ہونے کے برابر کر رہا ہے، لیکن میں روسو کی اس رائے کا قائل ہوں کہ انسان میں نیکی کی صلاحیت موجود ہے، تاریخ ان لوگوں کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھتی جو صرف اچھے وقت میں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، اور تاریخ یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ اچھے (یا برے) وقت ہمیشہ جلد ختم ہو جاتے ہیں‘۔
جسٹس بابر ستار نے امید ظاہر کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس خط کو ’اسی جذبے کے ساتھ پڑھیں گے جس میں یہ لکھا گیا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر اس خط کا مواد کسی کو برا لگے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کو دکھ دینا نہیں ہے، ہم سب بالغ ہیں اور ہمیں اپنے ادارے کی خرابیوں پر کھل کر بات کرنی چاہیے، جب تک ہم اپنی ناکامیوں کو تسلیم نہیں کریں گے، اصلاح ممکن نہیں‘۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس بابر ستار اس سے پہلے بھی متعدد معاملات پر چیف جسٹس ڈوگر کو خطوط لکھ چکے ہیں، جن میں ہائی کورٹ کے قواعد میں ترمیم اور انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل شامل ہے۔
حال ہی میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ڈویژنل بنچ تشکیل دیا ہے جو تقریباً 2000 ٹیکس ریفرنسز کے بیک لاگ کو نمٹائے گا۔
اس خصوصی بینچ میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان شامل ہیں، ہائی کورٹ کی انتظامیہ نے دونوں ججوں کے زیر التوا مقدمات دوسرے دستیاب ججوں کو منتقل کر دیے ہیں۔
مشہور خبریں۔
غزہ اور مغربی پٹی کے بارے میں انتہاپسند صیہونی وزیر کے خواب
?️ 19 جون 2024سچ خبریں: ایک انتہاپسند صیہونی وزیر نے غزہ کی پٹی اور شمالی
جون
حالیہ قسام آپریشن منفرد تھا: عسکری ماہر
?️ 31 اگست 2025سچ خبریں: عسکری امور کے ماہر واصف عریقات نے زور دے کر
اگست
بھارت نے کشمیریوں کو گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے یرغمال بنا رکھا ہے، حریت کانفرنس
?️ 29 فروری 2024سرینگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں
فروری
قسط کی وصولی کےلئے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری
?️ 5 اکتوبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں)اسلام آباد میں ایک ارب ڈالر قرض کی قسط کے
اکتوبر
جسٹس عمر عطا بندیال جو ججز کی تقسیم اور سیاسی تنازعات سے بچ نہ سکے
?️ 14 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) ناانصافی کہیں بھی ہو لیکن وہ انصاف کے لیے
ستمبر
صیہونی فوجیوں کا الجزیرہ کے دفتر پر حملہ
?️ 7 جون 2025سچ خبریں: مطلع ذرائع نے بتایا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے مغربی
جون
چین نے خلا میں پہلی بار سیٹلائٹ ری فیولنگ مشن انجام دے دیا
?️ 23 جون 2025بیجنگ: (سچ خبریں) چین نے انقلابی قدم اٹھا کر دنیا کو حیران
جون
ہم سرخ لکیریں ہم معین کریں گے نہ امریکہ:انصار اللہ
?️ 15 نومبر 2022سچ خبریں:انصار اللہ کے ایک رکن نے یہ کہتے ہوئے کہ خطے
نومبر