اسلام آباد:(سچ خبریں) سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 25 مئی کے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی رپورٹس حقائق کے منافی اور یکطرفہ ہیں،جان بوجھ کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی، کارروائی ختم کی جائے۔
واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کردہ عمران خان کو لانگ مارچ سے روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم سے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا جس پر عمران خان نے 31 اکتوبر کو مختصر جواب جمع کراتے ہوئے تفصیلی جواب کے لیے مہلت طلب کی تھی۔
31 اکتوبر کو جمع کرائے گئے اپنے مختصر جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے میری طرف سے کرائی گئی کسی یقین دہانی کا علم نہیں ہے، عدلیہ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آج توہین عدالت کیس میں عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا تفصیلی جواب جمع کروا دیا، جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروایا ہے۔
تفصیلی جواب میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
جواب میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں بابر اعوان کی مجھ سے ملاقات کروانی کی بھی کہا، عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ نے بابر اعوان کی مجھے ملاقات میں کوئی سہولت نہیں کی، 25 مئی کو 6 بج کر 45 پر کارکنان کو دیا گیا وڈیو پیغام سیاسی کارکنان کی معلومات پر جاری کیا۔
اپنے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کی ذریعے رابطہ ناممکن تھا، نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے، اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ اداروں کی رپورٹس عدالتی حکم عدولی ثابت کرتیں ہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اداروں کی رپورٹس حقائق کے خلاف ہیں، ایجنسیوں کی رپورٹس یکطرفہ ہیں، جواب میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کر رہا ہے، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا، اس موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی تھی، اس موقع پر چیف جسٹسں نے کہا تھا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔
اس دوران بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ کے دیگر اراکین سے اختلاف کیا تھا، 4 ججز نے سابق وزیر اعظم سے جواب طلب کیا تھا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کارروائی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، ڈاکٹر بابر اعوان نے توہین عدالت کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔
جواب میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 25 مئی کو ایڈووکیٹ فیصل فرید نے مجھے عدالتی نوٹس کا بتایا، بطور وکیل چالیس سال عدلیہ کی معاونت میں گزارے، اسد عمر نے رابطہ پر زبانی ہدایات دی، اسد عمر کی زبانی ہدایات پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی۔
جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر گمراہ نہیں کیا، اچھی نیت سے عدالت کی معاونت کی، عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی لیڈرشپ سے میری اور فیصل چوہدری کی ملاقات کا انتظام حکومت کی ذمہ داری تھی، حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، 26 مئی کو عدالت کو حکومت کیطرف ملاقات کے انتظامات نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا، عدالت نے 26 مئی کو قرار دیا لانگ مارچ کے ختم ہو چکا ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا معاملہ کی تفصیل میں جانے کی ضرورر باقی نہیں رہی، اپنے جواب میں ڈاکٹر بابر اعوان نے توہین عدالت کی کارروائی سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کردی۔
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔
25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔
توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔
عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔