اسلام آباد:(سچ خبریں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) عرفان نواز میمن اور تین دیگر افسران پر پی ٹی آئی کے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت طویل حراست سے متعلق کیس میں توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی۔
کیس کی سماعت جسٹس بابر ستار نے کی، عدالت نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز جمیل ظفر، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) فاروق بٹر اور اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ناصر منظور پر بھی فرد جرم عائد کی۔
ڈی سی اسلام آباد عرفان میمن پر فرد جرم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر آپ کو سزا ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ 6 مہینے جیل ہوگی، آپ بھی زرا جیل میں رہ کر دیکھ لیں کہ جنہیں آپ جیل بھیجتے وہ کیسے گزارتے ہیں۔
ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ اس آرڈر کا مقصد عدالتی حکم کی توہین کرنا بالکل نہیں تھا، ڈی سی اسلام آباد نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی، تاہم عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کی معافی مسترد کرتے ہوئے فرد جرم پڑھ کر سنانا شروع کردی۔
ایم پی او آرڈر جاری کرکے اختیارات سے تجاوز پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن پر فرد جرم عائد کردی جب کہ انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
اس کے علاوہ ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد پولیس جمیل ظفر پر بھی فرد جرم عائد کردی گئی، جسٹس بابر ستار نے جمیل ظفر پر توہین عدالت کیس میں الزامات پڑھ کر سنائے جب کہ انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ دفاع پیش کرنا چاہتے ہیں؟ ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ مجھے وقت دے دیا جائے ۔
اس کے علاوہ ایس پی فاروق بٹر اور ایس ایچ او ناصر منظور پر بھی توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عائد کردی گئی جب کہ ان دونوں افسران نے بھی صحت جرم سے انکار کیا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تمام نامزد افسران پر فرد جرم عائد کی۔
فرد جرم عائد کیے جانے سے قبل ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افسران نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، فرد جرم عائد نہ کی جائے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیسے نہ فرد جرم عائد کریں، توہین عدالت کا معاملہ یہاں چل رہا تھا، پھر بھی آپ ایم پی او آرڈر جاری کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ گزشتہ روز ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ایم پی او کے تحت مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کے اس کے اختیارات لے لیے تھے۔
یاد رہے کہ 16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شاندانہ گلزار کی مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے دونوں کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی جب کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
واضح رہے کہ 15 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار خان کی جانب سے ایم پی او کے تحت نظر بندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سٹی پولیس چیف، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اور دیگر حکام کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کو سب سے پہلے 16 مئی کو ایم پی او آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 کے تحت اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے فوراً بعد انہیں اسی دفعہ کے تحت 30 مئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں 3 اگست کو شہریار آفریدی کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ضمانت دی تھی لیکن بعد میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد راولپنڈی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا، ان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں شہریار آفریدی کی رہائی اور ایم پی او آرڈر کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ شاندانہ گلزار خان کو 9 اگست کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر ’اغوا‘ کیا تھا اور بعد میں ان کی والدہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10 اے اور 14 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں پولیس سے ان کی بیٹی کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔