اسلام آباد(سچ خبریں) سرکاری حلقوں نے تصدیق کی ہے کہ بھارت نے تناؤ کو کم کرنے کے لیے دسمبر 2020 میں جموں و کشمیر سمیت تمام دیگر خفیہ امور پر مذاکرات پر بات چیت کی پیشکش کی تھی پاکستان کے اعلیٰ سطح کے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارتی پیش کش پر پاکستانی قیادت کے درمیان تبادلہ خیال ہوا اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے تمام آپشنز کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ بھارت نے تجویز پیش کی تھی کہ جامع بات چیت میں تمام مسائل ایک جگہ زیر بحث لانے کے بجائے دونوں ممالک تمام متنازع معاملات پر شانہ بشانہ بات چیت شروع کریں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی قیادت نے ان تمام آپشنز پر اتفاق کیا تھا جو تناؤ کو کم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے ایک مناسب موقع ہے کہ اسٹریٹجک توقف کریں، ہمیں تشدد سے دور ہو کر داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بیک چینل مذاکرات دونوں ممالک کی انٹیلی جنس رہنماؤں کے مابین ہو رہے ہیں ذرائع نے بتایا کہ نئی دہلی نے ترجیح دی تھی کہ کسی سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے کرنے کے بجائے خفیہ مذاکرات ہونے چاہیے اور اسلام آباد نے اس پر اتفاق کیا تھا۔
عہدیدار نے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں پاکستان کی بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اپنی ریاستی حیثیت پر واپس آجائے اور بھارت متنازع علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کو نہ لانے پر متفق ہے دونوں حکومتوں نے ابھی اس اقدام میں کسی تیسری پارٹی کو شامل نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
عہدے داروں کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں براہ راست اور بالواسطہ پالیسیاں اپنائی اور ناکام ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے بتایا کہ ‘بات چیت کا راستہ قدرے پیچیدہ ہوگا لیکن اگر ہم اس پر قائم رہے تو ہم اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں’۔
بیک دوڑ بات چیت کو اس وقت دھچکا لگا جب وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھارت سے چینی اور گندم کی درآمد کا اعلان کیا لیکن کابینہ نے فیصلے کی منظوری نہیں دی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت چند وزرا نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔
ذرائع کا خیال ہے کہ اس الجھن کا خفیہ مذاکرات پر منفی اثر پڑا تھا اور حکومت پر سخت مؤقف اپنانے پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔نئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ابتدائی بیک چینل رابطے 2017 میں ہوئے تھے۔
ذرائع کے مطابق متعلقہ سینئر بھارتی عہدیداروں نے بات چیت شروع کرنے کے لیے پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی قیادت کو ایک خفیہ پیغام پہنچایا تھا۔
اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس بیک دوڑ مذاکرات کو آگے بڑھایا جو پھر بتدریج جاری رہا تاہم پچھلے سال دسمبر میں بات چیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔
اس کے بعد سے اعتماد سازی کے متعدد اقدامات ہوچکے ہیں جس میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی معاہدہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سول اور فوجی قیادت بھارت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔ماضی میں فوج کی بھارت کے ساتھ پالیسیوں پر منتخب قیادت سے اختلاف رائے تھا حکام اب کہتے ہیں کہ فوجی ہائی کمان جنوبی ایشیا میں قیام امن چاہتی ہے۔
ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘جنگ سے کبھی بھی مسائل کا حل نہیں نکالا اور دو ایٹمی طاقتیں تنازعات کے متحمل نہیں ہوسکتیں
حکام کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو آج سرحدوں پر تصادم کی صورتحال میں پھنس جانے کے بجائے صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور آبادی پر قابو پانے جیسے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک ذرائع نے کہا کہ اگر ہم تاریخ کو دیکھتے رہے تو پرانے زخموں کو دوبارہ کھولتے رہیں گے، بہت سے لوگ آج بحث کرتے ہیں کہ اگر ہم ماضی کی غلطیوں کے یرغمال بنے رہیں تو آگے بڑھنا ناممکن ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے عوام، جنہیں مسائل اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں راحت فراہم کرنے کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔