کوئٹہ: (سچ خبریں) بلوچستان کے علا قے وڈھ میں دستی بم پھٹنے سے ایک بچہ جاں بحق اور 7 بچے زخمی ہو گئے جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
ڈی ایس پی وڈھ عبدالمناف کے مطابق منگل کے روز خضدار کےقریب یہ واقعہ وڈھ کے علاقے زرچین میں پیش آیا جہاں مدرسے کے بچے دستی بم کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ اس دوران ایک زور دار دھماکا ہوا۔
واقعے میں زخمی ہونے والےک 7 بچوں کو وڈھ کے مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا البتہ دو شدید زخمیوں کو خضدار منتقل کیا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بچہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہو ئے چل بسا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ علا قے کو گھیر ئے لے کر تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ بچوں کے ہاتھ دستی بم کیسے لگا تھا۔
واضح رہے کہ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ سینکڑوں شہری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
رواں ماہ 8 اکتوبر کو کوئٹہ میں پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) کے پروجیکٹ منیجر کی گاڑی کو سڑک کنارے نصب بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں منیجر جاں بحق اور ڈرائیور شدید زخمی ہو گیا تھا۔
گزشتہ ماہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں خود کش دھماکے میں پولیس افسر سمیت 53 افراد جاں بحق اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے تھے۔
سٹی اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد جاوید لہڑی نے کہا تھا کہ دھماکا ’خودکش‘ تھا اور بمبار نے خود کو ڈی ایس پی علی نواز گشکوری کی گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑا لیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
اس تمام صورتحال کے دوران یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو حریف گروپوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ دوبارہ شروع ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں کراچی۔کوئٹہ نیشنل ہائی وے پر ٹریفک معطل اور ضلع میں معمولات زندگی متاثر ہو گئے تھے۔
مسلح افراد اس محاذ پر ڈیڑھ ماہ سے خندقوں میں پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز قبائلی عمائدین کی معاونت کے ساتھ جنگ بندی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اس سے قبل جولائی کے آخر میں سروان قبیلے کے سربراہ نواب اسلم رئیسانی کی سربراہی میں ایک مصالحتی جرگے نے متحارب دھڑوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کی، جس کے نتیجے میں جھڑپوں کا خاتمہ ہوا تھا۔
تاہم چند ہفتوں میں ہی دونوں گروپوں نے جنگ بندی معاہدہ توڑ دیا، جس پر نواب اسلم رئیسانی اور دیگر قبائلی عمائدین کی کوششوں سے اتفاق ہوا تھا۔