اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا پہنچ گئے۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ نے گووا میں بلاول بھٹو کی چینی ہم منصب کن گینگ کے ہمراہ تصاویر شیئر کیں۔
2011 کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ نے گوا پہنچنے کے بعد اپنے بیان میں توقع ظاہر کی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس کامیاب رہے گا، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت اور پاکستانی وفد کی قیادت کرنا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس بہت ہی کامیاب رہے گا۔
قبل ازیں، اپنی روانگی سے قبل جاری ایک بیان میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے ساتھ باہمی روابط کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں گووا میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا، اجلاس میں میری شرکت کا فیصلہ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ایس سی او اور اس کی رکنیت کو کتنی اہمیت دیتا ہے‘۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس پر مرکوز اس دورے کے دوران میں رکن ممالک اور دوست ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ تعمیری گفتگو کا منتظر ہوں‘۔
دریں اثنا ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’بلاول بھٹو کراچی سے گووا روانہ ہوگئے ہیں‘، تاہم وزیر خارجہ کے ہمراہ جانے والے وفد کی تفصیلات فی الوقت دستیاب نہیں ہیں۔
آخری بار جولائی 2011 میں اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امن مذاکرات کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا، اس کے بعد یہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ بھارت ہے۔
دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ تنظیم کے چارٹر کی پاسداری کے لیے ملک کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہم خطے میں امن اور استحکام کی مشترکہ اقدار کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم سب تعلق، تجارت اور باہمی طور پر مفید تعاون کی بنیاد پر یکساں فائدے پر یقین رکھتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں روایتی حریفوں کے درمیان تعلقات کئی عوامل کے باعث تناؤ کا شکار ہیں۔
پاکستان نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وزیر خارجہ اس دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے اس دورے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس دورے کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت کے طور پر تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی ہے، اس دورے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو 8 رکنی سیاسی اور سیکیورٹی بلاک ہے جس میں روس اور چین بھی شامل ہیں، پاکستان خود کو مزید تنہا کرنے کی اجازت بھارت کو ہر گز نہیں دے سکتا۔
وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر غور اور کچھ ادارہ جاتی دستاویزات پر دستخط کرنے کے علاوہ رواں برس 3 اور 4 جولائی کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی 17ویں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ اجلاس کے ایجنڈے اور فیصلوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔
اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ کی دوست ممالک کے ہم منصبوں سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
بھارت نے دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ چین اور روس کے وزرائے خارجہ کو بھی دعوت نامے بھیجے ہیں، ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا سب سے نیا رکن ہے اور وہ پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں باضابطہ رکن کے طور پر شرکت کرے گا۔