لاہور:(سچ خبریں) لاہور کی خصوصی عدالت کے جج نے کہا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بے نامی بینک اکاؤنٹس سے مستفید ہوئے۔
33 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جج اسپیشل کورٹ (سینٹرل ون) اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں استغاثہ اپنے دلائل کے دوران ریکارڈ پر کوئی ثبوت لانے میں ناکام رہا جس سے یہ ثابت ہو کہ درخواست گزاروں میں سے کسی کے پاس بھی مبینہ بے نامی اکاؤنٹس چلانے کا کوئی اختیار تھا۔
یہ فیصلہ جج کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں بری کیے جانے کے ایک روز بعد سامنےآیا ہے۔
اپنی تحریری فیصلے میں جج نے کہا ہے کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے درخواست گزاروں اور کسی بھی اکاؤنٹ کو کھولنے یا چلانے کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ ظاہر ہو یا جس سے ظاہر ہو کہ درخواست گزاروں کے کسی اکاؤنٹ سے یا ان کے کسی اناؤنٹ میں کوئی رقم منتقل کی گئ ہو۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مبینہ بے نامی اکاؤنٹس سے درخواست گزاروں کی جانب سے کوئی نفع حاصل کرنے کے حوالے سے ریکارڈ خاموش ہے۔
اعجاز حسن اعوان نے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے 66 گواہوں میں سے کسی نے بھی درخواست گزاروں کا اکاؤنٹس سے کوئی تعلق ثابت نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے شواہد کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنادیا جائے تب بھی کسی ملزم کو سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جج نے فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک مرحلے پر تحقیقات کا حصہ بنائے بینکرز کو بعد میں تفتیش کے دوران کلیئر کر دیا گیا جب کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اور رضاکارانہ طور پر ان اکاؤنٹس کھولنے میں کسی قسم کا تعاون یا کوئی مدد کی ہو جنہیں منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں بے نامی اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی مجموعی رقم 26 ارب روپے ظاہر کی گئی جسے چالان میں کم کر کے 16 ارب روپے کردیا گیا۔
جج نے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ اس الزام کو ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی "غیر قانونی مراعات، کک بیکس یا کوئی رشوت” وصول کی ہو، انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مقدمے کی کارروائی کے لیے کوئی بنیاد نہ ملنے پر بریت کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا
بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔ ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔
چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔
ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔‘
چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔