اسلام آباد (سچ خبریں) امریکا کی جانب سے فوجی اڈوں کی درخواست کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کر کے عمومی افکار کو امریکی دھمکیوں کے خلاف تحریک کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے ملک کو امریکی فوجی موجودگی کے نتائج سے بچائیں۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے واشنگٹن کو اڈے فراہم کرنے پر راضی ہوجاتا ہے تو بھی، امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکے گا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے پاکستان میں عدم تحفظ پیدا ہوگا۔لیکن پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے یہ موقف اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟
پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا دو دہائیوں کا تجربہ ہے جس کے نتیجے میں عدم تحفظ اور ملک میں دہشت گردی پھیلی، لہذا عمران خان جانتے ہیں کہ اس کی درخواست کو قبول کرنے سے، پاکستان ایک بار پھر انتقامی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان پر نائن الیون حملوں کے دوران پرویز مشرف کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے باوجود، واشنگٹن نے اسلام آباد کے ساتھ اپنے فوجی اور معاشی وعدوں پر عمل نہیں کیا اور یہاں تک کہ ملک میں سلامتی بحران پیدا ہوگیا۔
یہ امر اہم ہے کہ اگرچہ امریکہ نے پاکستان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین تعلقات میں بظاہر پاکستان پر زیادہ پابندیاں عائد نہیں کی ہیں، تاہم ، توانائی کی منتقلی کے لئے پائپ لائن کے منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کا سبب بنا ہے۔
دوسری طرف، امریکہ نے سیاسی، سلامتی اور معاشی دباؤ کے ذریعے اسلام آباد کو بیجنگ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے پاکستان کے معاشی چیلنجوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ امریکی فوجی اڈے نہ دینے سے متعلق عمران خان کا موقف پاکستان میں موجودہ حقائق اور اپنے حکمرانوں سے پاکستانی عوام کے مطالبات پر مبنی ہے۔ پاکستانی عوام اپنے ملک میں امریکی موجودگی کو قبول نہیں کرتی ہے اور اس موجودگی کو افغانستان اور عراق کی تباہی اور عرب ممالک کے امریکہ کے حوالے کرنے کے برابر سمجھتی ہے۔
دنیا میں امریکا کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اقوام عالم کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اس نے ملکوں کو ختم کرنے، حکومتوں کا تختہ پلٹنے اور دہشت گردی کی حمایت کرنے سے بھی کتراتا نہیں ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے رد عمل کو دنیا میں مروجہ فکر کے مظہر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکہ نجات دہندہ نہیں ہے بلکہ امریکا ملکوں میں بحران کی جڑ بن چکاہے اور اس کے ساتھ ہی بھاری نقصان کا سبب بنتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک قابل ذکر سبق ہے جو امریکہ کو ایک سپر پاور اور ایک طاقت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں، اور اپنے تخت و بادشاہت کو برقرار رکھنے کے لئے ، وہ صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتے کرتے ہوئے واشنگٹن کے مطالبات پر عمل پیرا ہیں۔ اور یہ خطے، مسلم دنیا ، فلسطین اور اس کی اقوام کے ساتھ عظیم غداری ہے۔