اسلام آباد: (سچ خبریں) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ قو م رمضان کا چاند دیکھنے میں مصروف تھی کہ آدھی رات کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا چاند طلوع ہوا جو قوم کے لیے تاریکی لے کر آیا۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے جہاں ریاستی اداروں کے احترام سمیت اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹرز بھی شریک ہیں جہاں قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کی۔
سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ قوم رمضان کا چاند دیکھنے میں مصروف تھی کہ رویت ہلال کمیٹی کا چاند نظر آنے کا اعلان پیچھے رہ گیا کہ اتنے میں آدھی رات کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا چاند طلوع ہوا جو قوم کے لیے تاریکی لے کر آیا۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اس آدھی رات کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اعلان کرتے ہوئے اس کی دی ہوئی تاریخ کو الیکشن کرانے سے انکار کیا اور ایک اور نئی تاریخ دے دی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنے فیصلے میں عذر دیا کہ آئی ایم ایف الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کی اجازت نہیں دے رہا جب کہ وہ الگ بات ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈز نے فوری طور پر رد عمل دیا کہ ہماری طرف سے اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ اْپ کا اپنا معاملہ ہے، آپ اپنی طرف سے فنڈز ارینج کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دوسرا عذر پیش کیا کہ سیکیورٹی صورتحال ٹھیک نہیں ہے، اسپیکر اس بات کے گراہ ہیں کہ کتنے مشکل حالات سے ملک گزرا۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ صحافت کو ریاست کا اہم ستون مانا جاتا ہے، آج دیکھ لیں کہ ان کی جو زبان بندی ہے، ان کے اظہار پر جو پابندی ہے، ان کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے، جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، آزاد آوازوں کو گلا دبایا جا رہا ہے، اس پر صحافی احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ بھی نہ کریں تو کیا کریں، ان کے پاس صرف کیمرہ اور قلم ہے، ان کے پاکس کوئی توپ اور تلوار نہیں ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اسپیکر صحافیوں کے احتجاج کو ریکارڈ کرائیں اور ان کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائیں۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ ہم محترمہ شہید کی شہادت دیکھ چکے، آپریشن رد الفساد دیکھ چکے، دہشت گردی کا عروج دیکھ چکے لیکن پھر بھی الیکشن ہوئے، ایران، عراق جنگ ہوئی، پھر بھی وہاں ایران میں الیکشن ہوئے، ترکیہ میں زلزلے سے ملک ہل گیا لیکن الیکشن کی تاریخ برقرار رہتی ہے، کیونکہ جہاں جمہوری سوچ اور رویے ہوتے ہیں وہاں الیکشن سے بھاگا نہیں جاتا، جس طرح مؤمن موت سے نہیں بھاگتا، اسی طرح سیاست دان الیکشن سے نہیں بھاگتا۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ سیاست دان الیکشن کے روز کا منتظر ہوتا ہے جب وہ اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش ہوتا ہے اور یہ عوام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس کے سر پر دستار رکھتے ہیں اور کس کو کہتے ہیں کہ آپ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ الیکشن میں ہار جیت چلتی رہتی ہے، آئین پاکستان بھی یہ کہتا ہے کہ خودمختاری رب کی ہے لیکن زمین پر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، زبان خلق کے اظہار کا طریقہ انتخابات ہیں، الیکشن کمیشن سب کام کر رہا ہے، اس پر تنقید کریں تو وہ کہتا ہے کہ میری توہین ہوگئی، توہین تنقید سے نہیں ہوتی، وہ آپ کے اعمال سے ہوتی ہے، آپ اپنا کام ٹھیک کریں، سب آپ کی عزت کرتے ہیں، کام ٹھیک نہ کریں تو تنقید ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ انہوں نے قوم کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ، ایک فیصلے سے عدلیہ کے فیصلے کو رد کیا گیا ہے، دوسری طرف آئین میں دیے گئے طریقہ کار کو بھی رد کیا گیا ہے، یہ توہین آئین بھی ہے اور آئین کی خلاف ورزی بھی ہے، یہ معاملہ اب کسی پارٹی کا یا صرف تحریک انصاف کا نہیں رہا، یہ معاملہ ریاست اور عوام ہے کہ انہوں نے یہاں آگے اب کونسا راستہ چننا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا اس راستے پر چلنا ہے کہ مرضی کے مطابق جب دل کرے گا الیکشن کرائیں گے، جیسے دل ہوگا الیکشن کرائیں گے یا آئین کے مطابق الیکشن کرانا ہے، عدلیہ کے فیصلے مرضی کے مطابق ماننے ہیں یا اختلاف رکھتے ہوئے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو رد کیا جس کے نتیجے میں یہ موجودہ حکومت بنی، وہ فیصلہ ہمیں سوٹ نہیں کرتا تھا لیکن ہم نے اس کو تسلیم کیا، ہمیں فیصلے تسلیم کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے اگر ہم نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے ۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ فیصلہ تسلیم کرنا تو دور کی بات، ہم نے دیکھا کہ باقاعدہ ایک منظم مہم شروع کی گئی، عدلیہ کے خلاف، ججز کے خلاف آڈیوز کی بھرمار ہوئی، تصاویر جاری کی گئیں، اس ہاؤس میں پلے کارڈز اٹھائے گئے، ہم کسی جج کو پسند کرنے یا نہ پسند کرنے کی بات نہیں کرتے، ہم ادارے کی بات کرتے ہیں، ادارہ فیصلہ کرتا ہے، وہ کسی کا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم پارلیمنٹ میں آئین کی پابندی نہیں کریں گے تو ریاست کیسے چلے گی، انتظامیہ اور ریاست اس طرح سے کام نہیں کرے گی تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہوگا، آئین عوام اور ریاست کا وہ رشتہ جوڑتا ہے جہاں آپ کی جان و مال، عزت و آبرو اور آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوگا، اگر یہ تحفظ حاصل نہیں ہوگا تو پھر یہ ریاست ستیلی ماں بن جاتی ہے، وہاں پھر وہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں کسی کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی محفوظ نہیں ہے، جس کو دل کرتا ہے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، زیر حراست تشدد کیا جا رہے ، ہم نے اس ملک کا کیا حال بنا دیا ہے، لہو لہو ہے آج یہ مملکت۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، آج اس ایوان کی روح بھی زخمی ہے، جو اپنے ارکان کو تحفظ نہیں دے سکتا اس سے بندہ کیا امید رکھے، عوام کیا امید رکھے جہاں ایک سابق وزیراعظم، ملک کا مقبول لیڈر، سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ کے گھر پر چڑھ دوڑتے ہیں، کیا یہ جموریت کی عکاسی کرتا ہے، کونسا آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ دنوں ہم نے پنجاب میں فسطائیت دیکھی، یہاں احتجاج کرنے والے پختونوں کو دہشت گرد کہا گیا، آپ کیا اس طرح سے ملک کی کوئی خدمت کر رہے ہیں، وہ پختون آج بھی ملک کے لیے خون دے رہے ہیں، ان پر ڈرون حملے ہوں، ان کا خون بہائیں اور بہتا دیکھیں اور پھر بھی آپ ان کو دہشت گردی کہیں، یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
قبل ازیں مشترکہ اجلاس کے لیے جاری کیے جانے والے 8 نکاتی ایجنڈے میں بتایا گیا تھا کہ اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث جاری رکھی جائے گی، اس کے علاوہ امن و امان کی صورتحال پر بھی تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
ریاستی اداروں اور اس سے منسلک شخصیات کی توہین کا معاملہ بھی ایجنڈے کا حصہ ہے، اس کے علاوہ ملک کی معاشی صورتحال، کشمیر، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور خارجہ پالیسی پر بھی بحث کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافے کے حوالے سے بات چیت کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔