اسلام آباد: (سچ خبریں) تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے آج ہونے والے پالیسی اجلاس میں مسلسل چوتھی بار بنیادی شرح کو 22 فیصد پر برقرار رکھے جانے کی توقع ہے، جبکہ آنے والے مہینوں میں افراط زر میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے معیشت کو فروغ دینے کے لیے شرح میں کمی کی راہ ہموار ہوگی۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ملک جولائی میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے 3 ارب ڈالر کے قرضوں کی منظوری کے بعد عبوری حکومت کی نگرانی میں معاشی بحالی کے مشکل سفر پر گامزن ہے، جس نے ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد کی لیکن اس میں ایسی شرائط موجود ہیں، جو افراط زر کو روکنے کی کوششوں کو مشکل بناتی ہیں۔
پالیسی ریٹ جون میں 22 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا اور گزشتہ 3 جائزہ اجلاسوں میں اس میں ردو بدل نہیں کیا گیا، رائٹرز کے سروے میں شامل 12 تجزیہ کاروں کی اوسط پیش گوئی کے مطابق شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی جبکہ ایک تجزیہ کار نے 100 بیسس پوائنٹس کمی کی پیش گوئی کی۔
مارکیٹ میں اتفاق رائے ہے کہ اگلے سال کی پہلی ششماہی میں شرح سود میں بتدریج نرمی شروع ہو جائے گی، جس کا انحصار مہنگائی کی رفتار پر ہے، اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ عثمان زاہد کا کہنا ہے کہ مہنگائی اب بھی بہت زیادہ ہے اور منفی حقیقی شرح سود اس وقت کسی نرمی کا جواز پیش نہیں کرتے، امریکا جیسے ہمارے تجارتی پارٹنرز پہلے ہی مثبت حقیقی شرح سود پر ہیں۔
عثمان زاہد نے مزید کہا کہ دیگر مصنوعات سمیت گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے نومبر میں افراط زر میں 2.7 فیصد ماہانہ اضافہ ہوا لیکن فروری 2024 تک سالانہ مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی، نومبر میں سالانہ مہنگائی 29.2 فیصد تھی، جو اکتوبر کے مقابلے تھوڑی زیادہ مگر مئی کے 38 فیصد سے بہت کم تھی۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹیو محمد سہیل کا کہنا تھا کہ مستحکم کرنسی، کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور آنے والے مہینوں میں افراط زر میں کمی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کو شرح کو کم کرنے کے لیے راغب کرنے کی کوشش کرے گی، انہوں نے کہا کہ کلیدی شرح منگل کو ہی 100 بیس پوائنٹس تک گر سکتی ہے۔