اسلام آباد: (سچ خبریں)اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی اہم پریس کانفرنس کے آغاز پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ خلفائے راشدین کا قوم ہے کہ کفر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔
مریم نواز نے کہا کہ پریس کانفرنس کے لیے آرہی تھی تو بہت سے لوگوں کے پیغامات آئے کہ آپ کی اپیل زیر التوا ہے آپ پریس کانفرنس نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، 75 سال تاریخ میں نہیں جانا چاہتی، حالیہ چند برسوں کے کچھ واقعات کا حوالہ دینا چاہتی ہوں جن کی تفصیلات دیکھ کر رونگٹے کھڑے کردینی والی ایک داستان سامنے آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تسلسل کے ساتھ غلط فیصلے ہونا، فیصلے بانچھ نہیں ہوتے، ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، کچھ فیصلوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی دہائیوں میں ان کے اثرات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی اس کے باہر سے نہیں ہوتی، ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، عدلیہ کی توہین کوئی شخص نہیں، اس کے متنازع فیصلوں سے ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں عدلیہ کی تعریف و توصیف میں لمبا چوڑا مضمون لکھ سکتی ہوں لیکن صرف ایک غلط فیصلہ اس پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا اور اسی طرح اگر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس پر کتنی بھی تنقید کی جائے، وہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
مریم نواز نے کہا کہ گزشتہ دنوں جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو پی ٹی آئی اس انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ گئی، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی دیواریں پھلادی گئیں، قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے دن رات کے اوقات میں عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کھولی گئی، رجسٹرار گھر سے بھاگا بھاگا آیا اور درخواست طلب کی تو پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ پٹیشن ابھی تیار نہیں ہے جس پر رجسٹرار نے کہا کہ ہم بیٹھیں ہیں آپ پٹیشن تیار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اس طرح کبھی اس سے قبل کسی مقدمے میں ہوا؟ انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کی پٹیشنز جاتی ہیں تو انتطار میں ہی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی جاتیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کونسا بینچ بنے گا اور جب بینچ بنتا ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، یہ ہے اس وقت ہمارے ملک میں انصاف کی حقیقت۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے الیکشن میں 6 ووٹ مسترد ہوئے تھے، جب سپریم کورٹ گئے تو کہا گیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے خلاف جن اراکین نے ووٹ دیے ہیں وہ شمار نہیں کیے جائیں گے تو سپریم کورٹ نے بلاکر ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جب کہ وہ بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے فیصلوں کی ایک وہ بھی ہے کہ جب عدالت نے کہا کہ آئین کو توڑا گیا ہے لیکن پھر بھی قاسم سوری کو نہیں بلایا گیا، قاسم سوری کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، ان کے جعلی ووٹ ثابت ہوچکے ہیں لیکن ڈھائی سال سے ان کو اسٹے آرڈر ملا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین شکنی کیس میں صدر مملکت اور قاسم سوری ملوث ہیں لیکن انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا جب کہ وزیراعظم شہباز شریف اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے پر 25 اراکین کو ڈی سیٹ کیا گیا اور کہا گیا کہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے جائیں گے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر 95 فیصد قانونی ماہرین نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین پاکستان کو ری رائٹ کرنے کے مترارف ہے، عدالت نے اپنے اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کے 25 ارکان عمران خان کی جھولی میں پھینک دے اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا۔
مریم نواز نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کو بڑھانا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو کم کرنا یہ کہاں کا انصاف ہے، پارٹی کو دیکھ کر، پارٹی کے سربراہ کو دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، پارٹی ہیڈ کی تشریح بدل جاتی ہے، چند روز قبل کیے گئے اپنے فیصلے ہی بدل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ہیڈ نواز شریف ہو تو پاناما پیپرز فیصلے میں ان سے پارٹی کی صدارت یہ کہہ کر لے لی گئی کہ پارٹی سربراہ کا اس پر اثر و رسوخ ہوتا ہے، یہ کہہ کر ان سے پارٹی کی صدارت لے لی گئی، جب چوہدری شجاعت بطور صدر کوئی حکم دیتے ہیں تو اس پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جب کہ عمران خان جب کوئی ہدایات دیتے ہیں تو وہ حکم معتبر مانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت جب حکم دیتے ہیں تو پارلیمانی پارٹی اہم ہوجاتی ہے اور جب عمران خان حکم دیتے ہیں تو پارٹی سربراہ کی تعریف بھی بدل جاتی ہے، آئین کی تشریح اور آئین کا حلیہ بھی بدل جاتا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ انصاف کا ترازو کو ٹھیک کرلیں، جب انصاف کا ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان بھی خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ٹرسٹی چیف منسٹرز، بلیک لا ڈکشنری جیسے منفرد خیالات کہاں سے آتے ہیں، کہاں کبھی سنا کہ کوئی ٹرسٹی چیف منسٹر ہو، جب سے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں اس وقت سے انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا، انہیں کابینہ نہیں بنانے دی گئی، کبھی وہ پارلیمنٹ جاتے ہیں اور کبھی عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں، جب 4 سال کے دوران عمران خان ملکی معیشت کو تباہ کر رہا تھا کیا اس دوران کسی نے کوئی بیان معشیت کی تباہی سے متعلق سنا، اگر معیشت کا موازنہ کرنا ہے تو پھر اس وقت سے موازنہ ہوگا جب آپ نے نواز شریف کو نکالا تھا اورعمران خان حکومت چھوڑ کر گیا اس وقت معیشت کی کیا حالت تھی، جب عمران خان گیا تو اس وقت ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی۔
ان کا کہنا تھا جب عمران خان ملک کی معشیت کو تباہ کر رہا تھا تو اس وقت کسی کو اس کا خیال نہیں آیا، اس کو وقت بھی کھلی آزادی تھی اور آج بھی اس کو کھلی چھوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی کابینہ نے برطانیہ سے ملنے والے 50 ارب روپے خاموشی سے ملک ریاض کو دے دیے، وہ پاکستانی قوم کا پیسا تھا، کہاں ہے اس کی منی ٹریل، اس پر کسی نے سوموٹو نوٹس لیا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ معیشت کی تباہی کے سارے تانے بانے بھی عدالت کے فیصلوں سے ملتے ہیں کہ 2017 میں معشیت کے تمام اشارے مثبت تھے اس کو آپ نے غیر مستحکم کیا، جب سے آپ نے نواز شریف کو اقامہ جیسے مزاق پر نکالا، اس وقت سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے، ملک ایسا ہلا کہ اب تک سنبھلنے میں نہیں آرہا۔
انہوں نے کہا کہ وٹس ایپ کالز پر جے آئی ٹیز بنائی گئیں، نگران جج لگایا گیا، اس وقت جو مانیٹرنگ جج لگایا گیا تھا وہ جج آج بھی ہم پر نگران جج لگا ہوا ہے، وہ جج صرف ایک مقدمے کے لیے لگایا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ وہ ہمارے اوپر تاحیات نگران جج لگ گیا ہے، ہمارے خلاف بنائے گئے ہر مقدمے میں وہ جج شامل ہوتا ہے، سپریم کورٹ میں اور دیگر اچھی شہرت والے ججز بھی ہیں، ان کو کیوں مقدمات میں شامل نہیں کیا جاتا، ایک یا 2 ججز جو ہمیشہ سے انیٹی مسلم لیگ (ن) رہے ہیں ان کو ہی کیوں ہمارے خلاف کیسز کے بینچ میں بٹھایا جاتا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اس پربھی از خود نوٹس ہونا چاہیے۔