اسلام آباد:(سچ خبریں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ سے جاری وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے لیے دائر عمران خان کی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیا گیا بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کریں۔
عدالت نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کا حکم برقرار رلکھا اور کہا کہ ٹرائل کورٹ اس بیان حلفی پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ روز درخواست دائر کرتے ہوئے اس پر منگل کو ہی سماعت کرنے کی استدعا کی تھی، تاہم عدالت عالیہ نے سماعت آج کے لیے مقرر کی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے آج سماعت کی جس کے دوران عمران خان کی جانب سے وکلا خواجہ حارث، علی بخاری، علی گوہر و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
ابتدائی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس عدالت نے درخواست سنی تھی اور ہدایات دی تھیں لیکن افسوس کہ کیا ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ ہمیں سن لیں، ہم قانون کے تحت عدالت کو مطمئن کریں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس عدالت نے پہلے ریلیف دیا تھا مگر ان عدالتی احکامات کا کیا بنا، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے سامنے جو درخواست ہے اس پر اعتراضات ہیں، ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کے وکلا کو اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی۔ خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ لاہور میں جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو ہو رہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے، اس عدالت نے ایک باعزت راستہ دیا تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
مختصر وقفے کے بعد وارنٹ منسوخی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست پر چھوٹے چھوٹے اعتراضات ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بائیو میٹرک اور دستخط کا اعتراض دور کر رہا ہوں، باقی اعتراضات دور کر کے لائیں پھر سنیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وارنٹ منسوخی کی درخواست پر سماعت ڈویژن بینچ کے بعد ہوگی، اس دوران ہم اپنی درخواست پر سے اعتراضات کو دور کرلیں گے۔
بعد ازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ عمران خان کی جانب سے دائر درخواست پر اعتراضات دور کردیے گئے ہیں اور درخواست پر نمبر بھی لگادیا گیا ہے، سماعت آج ہی ہوگی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے صرف 5 منٹ چاہیے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں، ہم نے 13 مارچ کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے عدالت نے ٹرائل کورٹ سے وارنٹ کے اجرا کو معطل کیا تھا اور عمران خان کو 13 مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، عمران خان اس روز گھر پر تھے۔
خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے کہا تھا کہ اگر درخواست گزار عدالت پیش نہ ہوئے تو وارنٹ گرفتاری بحال ہوگی لیکن 13 مارچ کو ہم نے ٹرائل کورٹ میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی تھی جسے خارج کر کے ٹرائل کورٹ نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
وکیل نے کہا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری جاری کرنا بنتا ہی نہیں، فوجداری مقدمات اور ضمانت کے کیسز میں فرق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کا وارنٹ فیلڈ میں تھا اور ابھی بھی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وارنٹ گرفتاری جاری نہ کریں جب تک درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ نہ ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ کے تحت وہ شکایت درج ہی نہیں کرائی گئی، ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت کمیشن خود ہی شکایت درج کرسکتا ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہے۔
خواجہ حارث نے مختلف قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ شکایت غلط طریقے سے دائر کی گئی ہے، متعلقہ افسر شکایت درج کرنے کا مجاز نہیں۔
دلائل دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ مقررہ دنوں کے اندر الیکشن کمیشن نے فوجداری مقدمہ درج کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ میں اس نقطے کو اٹھانے پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کچھ کہنے سے معذرت کرلی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ میں ابھی یہ نہیں بتایا کہ مقدمہ وقت پر درج ہوا یا نہیں اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کے پاس فوجداری مقدمہ ٹرائل کورٹ بیجھنے کا اختیار ہی نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی تک درخواست کے قابل سماعت پر بحث کوئی نہیں ہوئی؟
خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ابھی تک صرف ہماری حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر بحث ہوئی ہے، ٹرائل کورٹ کو ہم نے بتایا کہ پہلے کچھ گزارشات پر ہمیں سنیں لیکن ہماری درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہم وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی بھی کرمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟ کیس میں بنیادی خامیاں ہوسکتی ہیں مگر ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم نے عدالتی حکم نامے کی کی کاپی حاصل کرلی ہے مگر اس میں ہمارے دلائل کا ذکر ہی نہیں ہے، کرمنل کیس ہے لوگوں کی زندگی اس کیس میں اسٹیک پر ہے، درخواست گزار جہاں بھی جاتا ہے وہاں سے ضمانت بھی لے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں، میرے مؤکل نے بیان حلفی دیا ہے کہ میں عدالت میں پیش ہوں گا، ساتھ ہی انہوں نے بیان حلفی کی نقل عدالت میں جمع کرائی۔
عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے مؤکل کی ذمہ داری لے رہے ہیں کہ وہ عدالت پیش ہوں گے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ نے درخواست گزار کو عدالت میں پیش کرنا ہے۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمیں خواجہ صاحب کی بات پر یقین ہے لیکن عمران خان اگر پھر بھی پیش نہیں ہوتے تو کیا ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ اگر 18 مارچ کو درخواست گزار پیش نہیں ہوں گے تو خواجہ حارث وکالت چھوڑ دیں گے، یہ ہمیں یقین ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست گزار کی جانب سے پہلے بھی اسی طرح کا بیان حلفی دیا گیا تھا مگر پیش نہیں ہوئے تھے، ٹرائل کورٹ کا آرڈر کسی اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔
عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پولیس ریاست ہے، جس پر پتھراؤ اور پیٹرول بم پھینکے جارہے ہیں، دونوں جانب ہمارے بچے ہیں چاہے وہ پولیس ہو یا سیاسی جماعت کے کارکن ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا برطانیہ میں کوئی پولیس والے کی وردی کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟ وہاں ایسا بالکل نہیں ہوسکتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گزشتہ بیانِ حلفی پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ میں نے اپنی عدالت کے وقار اور باقی چیزیں بھی دیکھنی ہیں، لاہور میں جو بھی ہورہا ہے دونوں طرف ہمارے بچے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان ایک قومی لیڈر ہے وہ کیوں عدالت پیش ہونے سے ڈرتے ہیں، عمران خان برطانیہ میں رہے ہیں ان کو قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی کے اور ماضی کے تمام سیاستدانوں نے سوسائٹی بلڈنگ پر کچھ نہیں کیا۔
عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔
اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔
پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔