پشاور: (سچ خبریں) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مختلف طبقات کی جانب سے پاکستان کو معاشی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی کارکنان کی کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی حکومت کو اس ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آنے کے لیے یہودیوں کی پشت پناہی حاصل تھی کہ کشمیر کی حمایت ختم کی جائے، اسرائیل کو تسلیم کیا جائے اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔
غزہ تنازع کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے مسئلہ فلسطین کو پھر سے موضوع بحث بنا دیا ہے، غزہ میں شہری آبادی پر اندھا دھند بمباری جنگی جرم ہے۔
اسرائیلی بربریت پر انسانی حقوق کے چیمپئنز کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا نے 20 سال تک افغانستان پر بمباری کی اور پھر بھی حقوق کا محافظ ہونے کا دعویٰ کیا، امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے عراق، لیبیا اور شام کو تباہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگوں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور پھر انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انضمام کے نام پر مقامی لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی لوگ نہ تو صوبے میں مکمل طور پر آباد ہوسکے ہیں اور نہ ہی ان کی خصوصی حیثیت برقرار رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب میں نے فاٹا کے انضمام کی مخالفت کی تو ’طاقتور حلقوں‘ نے مجھے بتایا کہ ان پر عالمی طاقتوں کی جانب سے ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔