اسلام آباد: (سچ خبریں) اگرچہ پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، تاہم پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر واضح کردیا ہے کہ وہ ایک رکاوٹ ڈالنے والی قوت بننے کے بجائے اس بار پارلیمانی راستہ اختیار کریں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف مجلس وحدت مسلمین، محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا مل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور یہاں تک کہ فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے احتجاج میں شریک ہونے کے لیے بات چیت کر رہی ہے جسے اب عید الفطر کے وقفے کے بعد جاری کیا جائے گا۔
جب پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ احتجاج کے بارے میں ان کی حکمت عملی کے حوالے سے پوچھا گیا تو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے نشاندہی کی کہ ان کی جماعت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارلیمان میں بیٹھی اس وقت کی حکومت کو جائز مینڈیٹ حاصل نہیں ہے، دھرنے، بائیکاٹ یا اجتماعی استعفوں کا راستہ نہیں چنا۔
احتجاجی تحریک کے پیچھے وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کا مطالبہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونی چاہیے، عوام کسی کو ووٹ دیتے ہیں اور کوئی اور اقتدار میں آتا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو ان احتجاجی منصوبے میں کوئی رکاوٹ نظر آتی ہے تو بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وہ ملک بھر میں وقتا فوقتا پرامن احتجاج صرف سرکاری اجازت کے ساتھ مخصوص علاقوں میں ہی کریں گے۔
موجودہ حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنےکے حوالے سے بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ ہر حکومت اپنی مدت پوری کرے لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔
دریں اثنا، ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 6 ہائی کورٹ کے ججوں کے خط سے متعلق بینچ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں خالد خورشید، شوکت بسرا اور کنول شوزب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رؤف حسن نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس اس معاملے پر ایگزیکٹو سے ملاقات کرنے کا کوئی جواز اور منطق نہیں کیونکہ ہائی کورٹ کے ججوں نے مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا، ایگزیکٹو کی مداخلت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم خود بھی اس معاملے میں ملوث تھے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ کی سطح پر معاملے کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ چیف جسٹس نے کارروائی کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سے اپنی ملاقات کی وضاحت اور جواز پیش کرنے میں کافی وقت صرف کیا، ان کا کہنا تھا ہم سمجھتے ہین کہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے کیس اور اپنے طرز عمل کو متنازع بنایا ہے۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو جان کے خطرات لاحق ہیں اور انہیںزہر دیا جا رہا ہے۔
رؤف حسن نے کہا کہ پانچ ہفتے گزرنے کے باوجود بشریٰ بی بی صحت یاب نہیں ہوئیں بلکہ ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کے فوری احکامات دیے جائیں اور ان کے خون کے نمونے بیرون ملک بھجوائے جائیں کیونکہ پاکستان میں ایسی کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے جو سلو پوائزننگ کی خون کی رپورٹ تیار کر سکے اور زور دیا کہ ان کو فوری طور پر اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے بھی بشریٰ بی بی کی صحت کی تیزی سے بگڑتی ہوئی حالت کے باوجود طبی معائنے کی سہولیات سے انکار پر متعلقہ حکام پر تنقید کی۔