اسلام آباد:(سچ خبریں) ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تحفظات کو دور نہیں کر سکے گا اور پاکستان کے لیے موجودہ بیل آؤٹ پیکج کے زیر التوا نویں اور دسویں جائزے کو مکمل کرنا مزید مشکل بنا دے گا۔
واشنگٹن میں مقیم ماہر اقتصادیات عزیر یونس کی اس سوچ کو امریکی دارالحکومت میں بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے کہ یہ بجٹ کس طرح پاکستان کی آئی ایم ایف سے بقیہ دو قسطوں اور ایک نیا امدادی پیکج حاصل کرنے کے امکانات کو متاثر کرتا ہے۔
یہاں تک کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں موجود افراد بھی یہی جذبات رکھتے ہیں حالانکہ کوئی بھی اہلکار اس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے آن ریکارڈ تبصرہ کرنے کو تیار نہیں۔
ایک اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ کیا 24-2023 کا بجٹ پاکستانی معیشت کے بارے میں آئی ایم ایف کے خدشات کو دور کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو قسطیں بھول جائیں، طویل مدتی اصلاحات پر توجہ مرکوز کریں تاکہ آپ مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام حاصل کر سکیں، انہیں تجربات بند اور استحکام لانے کے لیے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈان سے بات کرنے والے ذرائع نے وضاحت کی کہ موجودہ حکومت تقریباً 60 دنوں میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور پھر 90 دنوں کے لیے نئی عبوری حکومت ہوگی، اگر کوئی مالیاتی ادارہ، جیسے کہ آئی ایم ایف، پاکستان کے ساتھ کسی پروگرام کا حصہ بنتا ہے، تو اسے دونوں فریقین کے اتفاق سے ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کی گارنٹی درکار ہوگی۔
ایک ذرائع نے سوال کیا کہ جو حکومت 60 سے 90 دن کے لیے ہے وہ یہ گارنٹی کیسے دے سکتی ہے؟۔
اسی لیے ذرائع نے وضاحت کی آئی ایم ایف یا کوئی اور قرض دینے والا ادارہ مستحکم حکومت کے بغیر پاکستان کے ساتھ طویل مدتی پروگرام کا حصہ نہیں بنے گا۔
ایک اور ذریعے نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے عطیہ دہندگان بھی طویل مدتی سیاسی اور اقتصادی استحکام کی عدم موجودگی میں پاکستان کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں، ذرائع نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے اس دعوے کو قبول نہیں کر رہا ہے کہ اس کے پاس 6 ارب ڈالر کے خلا کو پورا کرنے کے لیے دوست ممالک کے وعدے موجود ہیں۔
ایک اور ذریعے نے کہا کہ امریکا کی طرف سے اس طرح کی یقین دہانی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگراموں کے لیے کوالیفائی کرنا آسان بنا سکتی ہے لیکن واشنگٹن اب ایسی کسی امداد کی پیشکش نہیں کر رہا ہے۔
ذرائع نے گزشتہ ہفتے پیش کیے گئے بجٹ میں 53 فیصد زائد اخراجات کو بہت زیادہ قرار دیا اور ایک ذریعے نے کہا کہ خسارہ بڑھ رہا ہے اور معیشت شدید شاک کی حالت میں ہے۔
ایک ذریعے نے وضاحت کی کہ ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کو روکنے کے لیے پاکستان نے کچھ سخت اقدامات کیے، جن کا نمو پر منفی اثر پڑ رہا ہے، تو سوال یہ ہے کہ پاکستان 3.5 فیصد ترقی کیسے حاصل کرے گا، جیسا کہ اس بجٹ میں بتایا گیا ہے؟
ایک بڑی امریکی مالیاتی کمپنی کے لیے کام کرنے والے آئی ایم ایف کے ایک سابق اہلکار نے نتائج کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موجودہ بجٹ انتخابات سے پہلے لوگوں کو چکمہ دینے کا ایک طریقہ ہے، وہ انتخابات کے فوراً بعد منی بجٹ لائیں گے۔
ایک اور ذریعے نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو اگلے انتخابات کے بارے میں بھی یقین نہیں ہے، اگر وہ الیکشن میں جا رہے ہیں تو وہ بجٹ کیسے برقرار رکھیں گے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ اپنے وعدوں پر عمل درآمد کریں گے؟“ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے اس بجٹ میں کوئی ترقیاتی نمو نہیں ہے، ایسی کوئی ساختی اصلاحات نہیں ہیں جن کا آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے۔
ایک ذریعے نے اس بجٹ کو سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ اصل بجٹ انتخابات کے بعد دسمبر میں آئے گا۔
ایک اور ذریعے نے وضاحت کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا موجودہ پروگرام 30 جون کو ختم ہو رہا ہے لہٰذا آئی ایم ایف بورڈ کے پاس ملاقات اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے 20 دن سے بھی کم وقت ہے کہ پاکستان کو باقی فنڈز کب اور کیسے جاری کیے جائیں۔
آئی ایم ایف بورڈ کے رکن ممالک فنڈ کے عملے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی طرف سے امداد کے لیے بھیجی گئی تجاویز سے اتفاق یا اختلاف کرنے سے پہلے اپنے دارالحکومتوں سے مشورہ کرنے کے لیے کچھ معقول وقت دیں۔
ذرائع کے مطابق جب تک یہ سارا عمل مکمل ہو گا، پاکستان کے پاس ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شاید ہی ایک ہفتے کا وقت ہو گا جو ان قسطیں کے حصول کے لیے تجویز کی جائیں گی، پاکستان ایسا کیسے کرے گا؟۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے قوانین کا تقاضا ہے کہ غور کے لیے دستاویزات کو اجلاس سے دو ہفتے قبل بورڈ کے ممبران کے درمیان منتقل کیا جانا چاہیے، یہ ضرورت کیسے پوری ہوگی؟۔
آئی ایم ایف کے ایک سابق اہلکار نے کہا کہ اگر میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مشن کا سربراہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہ ختم ہو گیا ہے، آئیے نئی حکومت کے ساتھ ایک نئے پروگرام پر گفت و شنید کرتے ہیں۔