ناروے(سچ خبریں) قطبین اور نارویجیئن ممالک میں رات کے وقت شوخ سبز اور سرخی مائل روشنیوں کی آوازوں سے متعلق نے اہم تحقیق کرتے ہوئے آوازیں سننے کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے تاہم بعض افراد نے ان روشنیوں کی لہروں سے متعلق حیران کن دعویٰ کیاہے۔
شدید سرد ترین علاقے میں رہنے والے بعض افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان روشنیوں کی آواز سن سکتے ہیں جو زوردار اشیا کے ٹوٹنے یا پھر گھن گرج جیسی سنائی دیتی ہیں۔اس مظاہر سے متعلق سائنسدان کہتے ہیں کہ جب سورج کی روشنی کے ذرات زمینی فضا میں موجود سالمات سے ملتے ہیں تو بالخصوص ارضی قطبین پر رنگ برنگی روشنیاں خارج ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ارضی مقناطیسی میدان بہت طاقتور ہے اور اسی کی وجہ سے روشنیاں پیدا ہوتی ہیں۔تاہم سائنسدانوں نے ان روشنیوں کی آوازیں سننے کے دعووں کو مسترد کردیا ہے۔
سال دوہزار سولہ میں فِن لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک عجیب تحقیق میں کہا کہ قطبینی روشنیاں آواز کی ایسی لہریں پیدا کرتی ہیں جنہیں انسانی کان سن سکتا ہے۔ تحقیق میں شامل ایک سائنسدان نے روشنی سے خارج ہونے والی آواز کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کی جو فرش سے ستر میٹر کی بلندی پر پیدا ہورہی تھیں۔
اب عین یہی شہادت شمالی کینیڈا اور ناروے سے بھی موصول ہوئی ہیں، لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ ارورا اور آسمانی روشنیاں اتنی بلندی پر بنتی ہیں کہ وہاں خلا شروع ہوجاتا ہے اور وہاں سے آواز کا زمین تک پہنچنا محال ہوتا ہے، سانسدانوں نے ان کی آواز کو واہمہ یا حسیاتی دھوکہ قرار دیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیسویں صدی کےدو اہم سائنسدانوں نےبھی ارورا کی آواز سننے کا دعویٰ کیا، ایک نے اسے ہلکی سیٹی کی آواز کہا تو دوسرے کا کہنا تھا کہ یہ ایسی آواز تھی گویا کوئی اسپرے کررہا ہے یا پھر سوکھی گھاس جل کر چٹخ رہی ہے۔
1923 میں کینیڈا کے مشہور فلکیات داں کلیریئنس چینٹ نے بھی کہا تھا کہ ناردرن لائٹس ارضی مقناطیسی میدان میں بھونچال پیدا کرتی ہے۔ اس طرح مقناطیسی اتارچڑھاؤ سے چرچراہٹ یا چٹخنے کی آواز آتی ہے۔