سچ خبریں: عراق کے ایک تجزیہ کار عصام شاکر نے قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی کے اچانک سامنے آنے کے بعد دشمن کے میڈیا پراپیگنڈے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کو ایران کی جانب سے ایک زبردست دھچکا لگا اور تہران نے جنگی فریب کی اسٹرٹیجی کی اعلیٰ مثال پیش کی۔
عراقی تجزیہ کار عصام شاکر کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے حالیہ ہفتوں میں جنرل اسماعیل قاآنی کے حوالے سے دشمن کے نفسیاتی حربوں کے مقابلے میں فریب اسٹرٹیجی کا کامیاب استعمال کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کی قدس فورس کے کمانڈر کی اسرائیل کو کھلی دھمکی
عصام شاکر نے عراقی ویب سائٹ بغداد الیوم کو انٹرویو دیتے ہوئے صیہونی حکومت کی واشنگٹن، نیٹو اور ان کے علاقائی اتحادیوں کی مدد سے خطے میں جاری شرانگیزی کو مزاحمتی محاذ کے خلاف ایک منظم منصوبہ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ہم ایک بڑے فوجی اتحاد کا سامنا کر رہے ہیں، جو شاید سرد جنگ کے بعد سب سے بڑا ہے۔
عصام شاکر نے تل ابیب اور اس کے مغربی اور علاقائی اتحادیوں کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب کے تین اہم اہداف ہیں:
اول: فلسطینی آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنا۔
دوم: غزہ کے لوگوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا، نسل کشی نیز لبنان اور شام میں فساد کو پھیلانا۔
سوم: نئے مشرق وسطیٰ کے نام سے ایک نئے نظام کی تشکیل، جس میں مغربی ایشیا کے تیل اور گیس کے وسائل پر قبضہ کرنا شامل ہے۔
عصام شاکر نے جنرل قاآنی کے اچانک ٹی وی پر ظاہر ہونے کو دشمن کے پراپیگنڈے کے خلاف ایران کی جانب سے ایک کاری ضرب قرار دیا اور کہا کہ یہ جنگی فریب کا ایک کامیاب آپریشن تھا۔
انہوں نے حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی محاذوں کی جانب سے اسرائیل کے اندر نئی کارروائیوں کا آغاز اور دشمن کے نئے اہداف کو نشانہ بنانے کو بھی اسی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی حالیہ تنظیم نو اور مزاحمتی محاذ کی بحالی سے آنے والے دنوں میں دشمن کے خلاف مزید حیران کن کامیابیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
عصام شاکر نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت ایک ایسی جنگ میں داخل ہو چکی ہے جس کی اسے بہت قیمت بھاری چکانی پڑے گی اور جلد ہی خطے کا منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔
عصام شاکر کے مطابق، یہ جنگ خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دے گی اور خطے کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔
دوسری جانب، فوجی امور کے ماہر احمد برسیم نے اپنے تجزیے میں کہا کہ جنرل قاآنی کے آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ قریبی تعلق اور خطے کے حساس حالات کے دوران ان کی موجودگی ایک اہم امر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قاآنی کی غیر موجودگی اور میڈیا میں ان کے حوالے سے دشمن کی قیاس آرائیاں، خاص طور پر بیروت میں ان کی موجودگی اور شیخ ہاشم صفی الدین کے ممکنہ ٹھکانے کو نشانہ بنانے سے قبل، ان کی شجاعت اور جنگی میدان میں خطرات مول لینے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں جس جنرل قاسم سلیمانی کے جانشین کی ایک منفرد خصوصیت ہے۔
برسیم نے کہا کہ جنرل قاآنی کا تہران میں شہید نیل فروشان کے جنازے میں دکھائی دینا اسرائیل اور امریکہ کے میڈیا پراپیگنڈے اور قیاس آرائیوں کو جھٹکا دینے کے مترادف تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ جنرل قاآنی دشمن کے پروپیگنڈے کے دوران بیروت میں موجود تھے لیکن حزب اللہ کی تیزی سے بحالی اور سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد تنظیم کی سیاسی اور عسکری ڈھانچے کو دوبارہ مضبوط کرنے کی صلاحیت، ان کی موجودگی کی عکاسی کرتی ہے۔
عراقی تجزیہ کار نے بغداد الیوم کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ حزب اللہ کے شہید سکریٹری جنرل کے بعد اس تنظیم کی فوجی طاقت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے جنرل قاآنی اور ان کے ساتھیوں کی بیروت میں موجودگی ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: قدس فورس کے کمانڈر کا فلسطینی مجاہدین کے نام اہم خط
برسیم نے اس بات پر زور دیا کہ جنرل قاآنی کا عوامی طور پر ظاہر ہونا اور ان کی زندگی کی تصدیق، شاید شیخ ہاشم صفی الدین کے زندہ ہونے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے، اور وہ کسی بھی وقت اپنے ظہور سے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو حیران کر سکتے ہیں،حزب اللہ دشمن کے پراپیگنڈے کو ختم کرے گی اور حقیقت سامنے لائے گی۔