سچ خبریں:امریکہ نے اپنی 248 سالہ تاریخ میں سے 232 سال جنگوں میں گزارے ہیں,بائیڈن کے دورِ حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور اب سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں یہ رجحان کیسے جاری رہے گا؟
جب مداخلت، فوجی طاقت، تناؤ، قبضہ، جنگ اور جنگ افروزی جیسے الفاظ ذہن میں آتے ہیں، تو فوراً امریکہ کا نام سامنے آتا ہے۔ وہ ملک جس کے مشرقِ وسطیٰ جیسے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر دنیا کے دور دراز خطوں میں فوجی اڈے موجود ہیں۔
امریکہ جنگ کا عادی :چین
چند روز قبل چین کی وزارت دفاع کے ترجمان ژانگ ژیاؤگانگ نے امریکہ کو جنگ کا عادی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ جنگ کا عادی امریکہ بین الاقوامی نظام کو سب سے بڑا نقصان پہنچانے والا اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ سے یوکرین تک بائیڈن کی ناکام حکمت عملی
انہوں نے عراق، افغانستان اور شام میں امریکی غیرقانونی فوجی سرگرمیوں کا ذکر کیا، جن سے شدید شہری نقصانات اور انسانی المیے پیدا ہو چکے ہیں، انہوں نے تائیوان کے معاملے پر بھی بات کی اور خبردار کیا کہ اس جزیرے کو چین سے الگ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناقابلِ برداشت ہوگی۔
امریکی مداخلتوں اور جنگوں کی تاریخ
1. ابتدائی ادوار: 18ویں اور 19ویں صدی
ابتدائی دور میں امریکہ اپنی سرحدوں کے تحفظ اور اپنے علاقوں کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔
– جنگِ آزادی (1775-1783)؛ برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے لڑی گئی جنگ۔
– جنگ 1812؛ برطانیہ کے خلاف تجارتی اور علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے۔
– میکسیکو-امریکہ جنگ (1846-1848)؛ کیلیفورنیا اور ٹیکساس جیسے علاقوں کے قبضے کے لیے۔
– ریڈ انڈینز کے قتلِ عام (1811-1890)؛ مقامی امریکیوں کی زمینوں پر قبضے کے لیے۔
2. بین الاقوامی میدان میں قدم: 20ویں صدی
20ویں صدی میں امریکہ ایک علاقائی طاقت سے عالمی طاقت میں تبدیل ہوا۔
– پہلی جنگِ عظیم (1917-1918)؛ 1917 میں جنگ میں شمولیت، جس نے دنیا کو بری طرح متاثر کیا اور امریکہ کو ابھرتی ہوئی عالمی طاقت بنا دیا۔
– دوسری جنگِ عظیم (1941-1945)؛ جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے، جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرم قرار پائے۔
– سرد جنگ (1947-1991)؛ سوویت یونین کے خلاف نظریاتی اور جغرافیائی سیاسی جنگ۔
نمایاں مداخلتیں:
– مشرقی ایشیا: کوریا جنگ (1950-1953) اور ویتنام جنگ (1955-1975)۔
– مغربی ایشیا: 1953 کا ایرانی کودتا اور خلیجی جنگ (1991)۔
امریکہ کی جنگوں اور مداخلتوں کا یہ تسلسل آج بھی جاری ہے، جس کے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
21ویں صدی: دہشت گردی کے خلاف جنگ
21ویں صدی میں امریکہ نے اپنی جنگی پالیسیوں کو مزید شدت دی۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر، طالبان کی حکومت کے خاتمے اور القاعدہ سے لڑائی کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا لیکن دو دہائیوں کے بعد، 2021 میں افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے وہاں سے فرار اختیار کیا۔
افغانستان پر قبضے کے دو سال بعد، امریکہ نے عراق (2003-2011) میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر جنگ شروع کی، عراق سے نکلنے کے کچھ ہی عرصے بعد، داعش کی موجودگی کے بہانے دوبارہ وہاں مداخلت کی اور اپنی افواج تعینات کیں تاکہ خطے میں اپنے مقاصد کو قریب سے کنٹرول کر سکے حالانکہ اب عراق میں داعش کا خاتمہ ہو چکا ہے، پھر بھی امریکی اڈے اور ہزاروں فوجی وہاں موجود ہیں۔
2011 میں لیبیا پر حملہ، یمن، پاکستان، اور صومالیہ میں ڈرون حملے دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے بہانے امریکہ کی دیگر مداخلتوں کی مثالیں ہیں۔
یوکرین بحران اور روس کے خلاف جنگ
یوکرین میں تین سالہ بحران، جس میں امریکہ نے روس کو کمزور کرنے کے لیے جنگ کا سہارا لیا، حالیہ برسوں کی بڑی جنگوں میں سے ایک ہے، مجارستان کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان کے مطابق، امریکہ اور یورپ نے یوکرین کو تقریباً 300 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی۔
غزہ میں نسل کشی اور اسرائیل کی حمایت
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سب سے بڑی حالیہ انسانیت سوز کارروائی غزہ میں نسل کشی اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ہے، اس جنگ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، شہید ہو چکے ہیں۔
امریکہ کی اس حمایت نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھایا، اور یمن، لبنان، شام، ایران، اور دیگر مقامات پر مزاحمتی گروہ غزہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
امریکی مداخلتوں کے اہداف
امریکہ کی مداخلتوں کے اہداف میں معاشی، جغرافیائی اور نظریاتی مفادات شامل ہیں:
– نظریاتی دشمنوں سے لڑائی: سرد جنگ کے دوران کمیونزم سے مقابلہ۔
– سیاسی اثر و رسوخ کا فروغ: مغربی اقدار کو پھیلانا۔
– معاشی مفادات کا تحفظ: مشرقِ وسطیٰ میں تیل جیسے قدرتی وسائل تک رسائی۔
– ہتھیاروں کی فروخت: کشیدگی کو ہوا دے کر امریکی ہتھیاروں کی فروخت۔
ہتھیاروں کی فروخت میں امریکہ کی برتری
2023 میں امریکہ نے 238 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے۔ دنیا کے 100 سب سے بڑے ہتھیار بنانے والے اداروں میں سے 51 فیصد آمدنی صرف امریکی کمپنیوں کو حاصل ہوئی، جو 302 ارب ڈالر بنتی ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی اسلحہ مارکیٹ میں امریکہ کا اہم کردار ہے اور یہ صنعت اس کی معیشت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔
امریکی جنگی پالیسیوں کے جاری رہنے کے امکانات اور عالمی بحران
امریکی جنگی پالیسیوں کے پیچھے نہ صرف بھاری مالی اخراجات بلکہ انسانی بحران اور دنیا بھر میں وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی بداعتمادی بھی پوشیدہ ہے۔
سابق امریکی رہنماؤں کا اعتراف
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ عہدیداران نے بھی اپنی تاریخ میں جنگوں اور مداخلتوں کا اعتراف کیا ہے۔
سابق امریکی صدر جیمی کارٹر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ امریکہ نے اپنی 242 سالہ تاریخ میں صرف 16 سال بغیر جنگ گزارے ہیں، باقی تمام وقت وہ کسی نہ کسی جنگ میں مصروف رہا ہے۔ ان کے بقول، امریکہ دنیا کا سب سے جنگ پسند ملک ہے، جو دوسروں پر اپنی اقدار تھوپنے کے لیے ہمیشہ جنگ کا سہارا لیتا ہے۔
یہ اعتراف آج سے چھ سال قبل کا ہے، لیکن اب امریکہ اپنی 248 سالہ تاریخ میں سے 232 سال جنگوں میں گزار چکا ہے، اور مستقبل میں بھی اس سلسلے کے جاری رہنے کے آثار نمایاں ہیں۔
ٹرمپ کے دور میں جنگی پالیسیوں کا امکان
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور متنازعہ پالیسیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں بھی جنگ، مداخلت اور تنازعات کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ کو جنگ کا نشہ ہے:چین
انہوں نے حال ہی میں کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی تجویز دے کر کینیڈین حکام کو غصے میں مبتلا کیا۔ اسی طرح انہوں نے پاناما کنال کو واپس لینے کی دھمکی دی اور گرین لینڈ خریدنے کی اپنی پرانی خواہش کا اعادہ کیا۔
ہمسایہ ممالک بھی محفوظ نہیں
ٹرمپ کے ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ یا مشرق و مغرب کے دور دراز خطے ہی نہیں بلکہ امریکہ کے شمالی اور جنوبی ہمسایے بھی اس جنگ پسند ملک کی مداخلتوں اور تنازعات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ 20
جنوری کو وائٹ ہاؤس میں ان کی آمد کے ساتھ ہی یہ واضح ہوگا کہ ان کی یہ جنگی پالیسیاں دنیا پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔