سچ خبریں: پچھلے ایک سال کے دوران حزب اللہ کی شمالی محاذ پر طاقت کے مظاہرے کو لبنان کی اکثر عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل رہی ہے، ان کا ماننا ہے کہ اگر حزب اللہ نہ ہوتی تو غزہ میں ہونے والے موجودہ مظالم لبنان میں بھی دہرائے جاتے۔
طوفان الاقصی آپریشن نے مشرق وسطیٰ کے اس شورش زدہ علاقے کے معاملات کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا، جنگ کے ابتدائی گھنٹوں سے ہی حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کی طاقت کا ایک حصہ مصروف کرنے، غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کرنے اور اسرائیلی ریاست کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے شمالی سرحدوں پر محدود اور کنٹرول شدہ جھڑپیں شروع کیں۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حزب اللہ سے کیوں ڈرتے ہیں؟
اب ایک سال کے بعد، اسرائیل نے اپنی توجہ شمالی سرحدوں پر مرکوز کر لی ہے اور لبنان کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے، اس وقت لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک مکمل جنگ کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود لبنان کی اکثر سیاسی جماعتیں حزب اللہ کے ساتھ مکمل متحد ہیں اور اپنی حمایت کے ذریعے نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ اسرائیل کے خلاف بھی حزب اللہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، اس تحریر میں ہم گزشتہ ایک سال کے دوران لبنان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رویے کا جائزہ لیں گے۔
تحریک امل: حزب اللہ کی اسٹریٹجک اتحادی
تحریک امل، جو لبنان کی دو بڑی شیعہ جماعتوں میں سے ایک ہے، نے قومی اتحاد کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے حزب اللہ کی مکمل حمایت کا موقف اپنایا ہے۔ نبیہ بری، جو اس تحریک کے سربراہ ہیں اور اس وقت لبنانی پارلیمنٹ کی صدارت بھی کر رہے ہیں، نے گزشتہ ایک سال کے دوران بارہا اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت پر زور دیا ہے۔
جون کے مہینے میں آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے دوران، انہوں نے کہا کہ لبنان غزہ کے لوگوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہ سکتا تھا اس لیے لبنانی مزاحمتی تحریک نے غزہ کے عوام کی حمایت کے لیے قدم اٹھایا،مجموعی طور پر، یہ بیانات حزب اللہ اور تحریک امل کے درمیان اسٹریٹجک اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں، جو لبنان کی دو قدیم شیعہ تحریکیں ہیں۔
اہل سنت اور دروزی جماعتیں حزب اللہ کے ساتھ
لبنان کے اہل سنت بھی مختلف معاملات میں حزب اللہ کے ساتھ اختلافات کے باوجود اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں، اگرچہ شخصیات جیسے سعد حریری نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور لبنان کی سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں رہے، لیکن ان کے قریبی افراد اور اہل سنت کی اکثریت اسرائیل کو خطے میں بحران کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں حزب اللہ کے ساتھ ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کے اس بیان کہ حزب اللہ غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت اور اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے میدان میں آئی ہے، کو اہل سنت حلقوں میں مثبت پذیرائی ملی اور حزب اللہ کے ناقدین نے جنگ کے دوران اپنی تنقیدات کو قومی اتحاد کی خاطر کم کر دیا۔
مثال کے طور پر، نجیب میقاتی، جو لبنان کے عبوری وزیر اعظم ہیں اور حزب اللہ کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، نے پچھلے ایک سال کے دوران حزب اللہ کے خلاف کوئی تنقیدی موقف اختیار نہیں کیا۔
انہوں نے اسرائیل کے لبنان پر حملوں کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا اور عالمی برادری سے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی لبنان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے انہوں نے نیویارک کا دورہ بھی منسوخ کر دیا تھا، مجموعی طور پر لبنان کے اہل سنت میں اسرائیل کے خلاف سخت نفرت کا ماحول ہے اور صیہونی ریاست کی جارحیتوں کے باعث زیادہ تر اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور سب حزب اللہ کی حمایت کر رہے ہیں۔
دروزی جماعت بھی گزشتہ ایک سال کے دوران مزاحمتی محاذ کے ساتھ رہی ہے، ولید جنبلاط، جو لبنان کی سوشلسٹ پروگریسو پارٹی کے سربراہ ہیں اور ان کی جماعت عام طور پر حزب اللہ کے مخالف سمجھی جاتی ہے، نے گزشتہ ایک سال کے دوران مزاحمتی محاذ کی بھرپور حمایت کی ہے۔
انہوں نے جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسے مزید بڑھنے سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ وہ صیہونی دشمن کے خلاف حزب اللہ اور مزاحمتی محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں، انہوں نے یہ موقف مجدل الشمس کے واقعے پر سید حسن نصر اللہ کی جانب سے تعریف کیے جانے کے بعد اختیار کیا۔
لبنان کے عیسائی حزب اللہ کے ساتھ
جبران باسیل کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک نامی مسیحی جماعت، ابتدائی طور پر حزب اللہ کی جنگ میں شمولیت پر تنقید کرتی رہی اور اس کے طرز عمل کو چیلنج کرتی تھی۔
تاہم، گزشتہ چند مہینوں میں اس جماعت نے اسرائیلی ریاست کے خلاف واضح موقف اپنایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل لبنان پر حملہ کرتا ہے تو وہ دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف متحد ہو جائیں گے۔
اس تنظیم نے پیجر بم دھماکوں اور لبنان پر سائبر حملوں کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ وہ مزاحمتی تحریک اور ہر اس گروہ کے ساتھ کھڑی ہو گی جو اسرائیل کے خلاف لڑے۔
انہوں نے حزب اللہ کے پارلیمانی رکن علی عمار کے گھر جا کر ان کے بیٹے کی شہادت پر تعزیت بھی کی، جو پیجر بم دھماکوں میں جاں بحق ہوئے۔
عیسائیوں کے درمیان، صرف دو گروہ سمیر جعجع کی قیادت میں القوات اللبنانیہ اور سامی جمیل کی قیادت میں حزب کتائب حزب اللہ کے ناقدین میں شامل ہیں۔
یہ دونوں جماعتیں ابتدا سے ہی اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ حزب اللہ کو حماس کی حمایت میں جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔
لبنان میں حزب اللہ کے خلاف زیادہ تر تنقیدیں انہی جماعتوں کی طرف سے آتی ہیں، اور یہ دونوں جماعتیں اسرائیل کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دیتیں بلکہ اپنی مخالفت کو حزب اللہ اور مزاحمتی محور کے خلاف اپنی شناخت کا حصہ بناتی ہیں، تاہم، ان جماعتوں کی محدود آواز کو لبنانی مسیحیت کی اکثریتی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔
خلاصہ
لبنانی عوام، جنہوں نے صیہونی ریاست کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے سبب اسرائیل کی جارحیت کا براہ راست سامنا کیا ہے، اس بات کو سمجھتے ہیں کہ صیہونی ریاست کے ساتھ مفاہمت یا نرمی ان کی جارحیت کو نہیں روکتی۔
حزب اللہ کی شمالی محاذ پر پچھلے ایک سال کی طاقت کا مظاہرہ عوام کی اکثریتی حمایت کے ساتھ رہا ہے کیونکہ زیادہ تر لبنانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر حزب اللہ نہ ہوتی تو اسرائیل غزہ میں کیے گئے مظالم کو لبنان میں بھی دہرا دیتا۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ کے میزائل کہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟ سید حسن نصراللہ کی زبانی
آج لبنان میں ایک مضبوط اسرائیل مخالف ماحول ہے اور مشاہدات و تجزیات سے لگتا ہے کہ یہ مخالفت مزید بڑھ گئی ہے، اگرچہ لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان لبنان کے ایک مکمل جنگ میں داخل ہونے کے بارے میں خدشات موجود ہیں، لیکن زیادہ تر لبنانی جانتے ہیں کہ اس صورتحال کا اصل ذمہ دار اسرائیل اور نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت ہے، حزب اللہ اس تنازعہ میں قربانی دے رہی ہے اور پچھلے ایک سال میں بھاری قیمت چکا رہی ہے۔