سچ خبریں:شمالی اور مشرقی شام میں مقیم کردوں کے نمائندے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ شام کے اقتدار سے علیحدگی یا تقسیم کے خواہاں نہیں ہیں۔
"یا تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے یا پھر شام کی سرزمین میں دفن ہو جائیں گے۔” یہ بیان ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے کردوں کے لیے دیے گئے ایک دھمکی آمیز بیان کی عکاسی کرتا ہے، جو انہوں نے دسمبر کے اوائل میں دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی شام سے کیا چاہتا ہے؟ ایک رپورٹ
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بشار الاسد کا نظام اور فوجی حکومت کمزور ہو چکی تھی اور "ہئیت تحریر الشام” کے دہشت گرد گروہ، جس کی قیادت محمد جولانی کر رہا ہے، دمشق پر قابض ہوئے۔
اردوغان کی اس دھمکی آمیز زبان نے ایک نئے تناظر میں شام کی سیاست کو جنم دیا ہے، جس میں جولانی کے گروہ، جو ترکی کی براہ راست حمایت سے مضبوط ہیں، شام کے شمالی حصوں میں کردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ اس بات کا غماز ہے کہ جولانی کے گروہ اور ترک حکومت کے درمیان براہ راست تعلقات ہیں، جو دونوں فریقین نے علانیہ طور پر تسلیم کیے ہیں۔
ترکی اور جولانی کے گروہ کا یہ موقف کہ کردوں کو اپنے ہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑے گا، شام کے شمالی علاقے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔
اگرچہ کردوں اور جولانی کے گروہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تاکہ اس بحران کو بغیر خونریزی کے حل کیا جا سکے، لیکن ترکی کی فوجی کارروائیاں اور جولانی کے گروہ کی بڑھتی ہوئی طاقت نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
ترکی کی حکمت عملی، جس میں بشار الاسد کے نظام کے زوال کو ایک موقع کے طور پر استعمال کیا گیا، شام کے شمال مشرق میں ترک فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رہی ہے۔
کردوں کی زیر قیادت "سریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF)” یا "قسد” کی تشکیل 2011 کے دوران ہوئی تھی، جب داعش نے عراق اور شام کے کئی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی تھیں۔
امریکہ کی حمایت کے ساتھ کردوں نے داعش کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور آج یہ علاقے جو کہ زرعی زمینوں اور تیل کے کنوؤں سے بھرپور ہیں، ان کا انتظام کردہ ہے۔
اس وقت ترکی، جو کردوں کو دہشت گرد گروہ "PKK” کا حصہ سمجھتا ہے، نے 2016 سے شام میں فوجی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، جن کا مقصد "PKK اور جنوبی ترکی کی سرحدوں کو محفوظ بنانا” بتایا جاتا ہے۔
کردستان عراق میں مقیم کردوں کے نمائندہ فتح الله حسینی نے ایک انٹرویو میں موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی، اس میں انہوں نے شمالی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں، ترکیہ کی فوجی کارروائیوں، "سریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF)” کے مستقبل اور "ہئیت تحریر الشام” کے زیر قیادت جولانی کے رژیم کی حالت کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔
حسینی نے کہا کہ کردوں کی طرف سے اپنے علاقوں میں انتظامیہ کی مضبوطی اور اپنے حقوق کے دفاع کے باوجود ترکی کی فوجی کارروائیاں انہیں مسلسل خطرے میں مبتلا کر رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کردوں کے علاقوں پر ترکی کے حملے اور جولانی کے دہشت گرد گروہ کی حمایت کے باوجود، کردوں کا مقصد شام کی سرحدوں میں مکمل خودمختاری نہیں بلکہ اس کی جغرافیائی سالمیت کے اندر اپنے حقوق کی دفاع کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "سریئن ڈیموکریٹک فورسز” نے داعش کے خلاف لڑتے ہوئے نہ صرف اپنے علاقے کی حفاظت کی بلکہ عالمی سطح پر کردوں کی جدوجہد کو بھی اجاگر کیا۔ تاہم، ان کے مطابق مستقبل میں ان فورسز کی بقا اور ان کی دفاعی صلاحیتیں ترکیہ کے مسلسل حملوں اور جولانی کے گروہ کی حمایت سے منسلک ہیں۔
حسینی نے آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جولانی حکومت اب ترکی کے زیر سایہ ہے، اور یہ کہ اس کی حکمت عملی اور علاقے میں موجودگی کردوں کے لیے ایک سنگین چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
قسد کی افواج اور ترکیہ کے مسلح گروپوں کے درمیان سد تشرین اور منبج میں لڑائی؛ جنگ کی صورتحال اور مستقبل کی پیش گوئی
ترکی کی افواج اور قسد کے درمیان شدید لڑائیاں ہر روز سد تشرین اور قرہ قوزاخ پل پر جاری ہیں۔ ترکیہ اس علاقے میں خاص طور پر ڈرون طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کرد غیر فوجیوں اور قسد کی افواج کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ترکی کا مقصد سد تشرین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے، جو نہ صرف شمال مشرقی شام بلکہ پورے شام کے لیے توانائی، پانی اور بجلی کے لحاظ سے اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔
ترکی کا ایک اور مقصد شہر کوبانی کا قبضہ حاصل کرنا اور کردوں کے زیر کنٹرول علاقے کو کم کرنا ہے، اس وقت منبج کے نصف شہر پر ترکی کے حمایت یافتہ گروپوں کا قبضہ ہے، جبکہ باقی نصف پر قسد کی افواج اور منبج فوجی کونسل کا کنٹرول ہے۔
یہ علاقے پہلے قسد کے زیر کنٹرول تھے، لیکن ترکیہ کی کوشش ہے کہ وہ کردوں کے زیر کنٹرول علاقے کو کم کرے تاکہ وہ جولانی کے رژیم کے ساتھ مذاکرات میں اپنے موقف کو کمزور کر سکیں اور ان کی چانچ بازی کی صلاحیت کو کم کر سکیں۔
جنگ کی صورتحال اور مستقبل کی پیش گوئی
اس علاقے میں جنگ کی صورتحال بتاتی ہے کہ لڑائیاں مزید شدت اختیار کر رہی ہیں اور ترکیہ مسلسل فوجی آپریشنز کے ذریعے کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سد تشرین کے علاقے کا کنٹرول اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔
آنے والے دنوں میں، یہ لڑائیاں شدت اختیار کر سکتی ہیں کیونکہ ترکیہ کے اہداف میں علاقے کا مزید قبضہ اور کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو کم کرنا شامل ہے۔
اگر ترکی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کوبانی و منبج جیسے علاقوں پر قبضہ کر لیتا ہے تو اس کا کردوں کی چانچ بازی کی طاقت پر بڑا اثر پڑے گا۔
رپورٹر: اس وقت سب سے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟ جولانی کا دباؤ یا ترکی کے حملے؟
حسینی: جب سے کردوں نے داعش کے دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور اپنے علاقے کے لوگوں کی حفاظت کرنا شروع کی، ترکی ہی وہ واحد ملک رہا ہے جس نے ہمارے لیے مشکلات پیدا کی ہیں اور ہر دن کردوں کے سامنے ایک نیا چیلنج رکھا ہے۔
ترکی کو کردوں سے ایک خوف اور نفرت ہے، وہ اپنے سرحدوں میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو نہیں برداشت کرتا،سریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) صرف اپنی دفاع کر رہی ہے اور نہ تو ترکیہ کے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی خطرہ بنی ہے اور نہ بنے گی۔
ترکی نے اپنے تمام وسائل کردوں کے خلاف استعمال کیے، لیکن ابھی تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی کردوں کو مکمل طور پر شکست دے پایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دمشق کے عارضی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ یہ حکومت جو دمشق پر مسلط کی گئی ہے، اس کے پاس مارچ کے شروع تک کا وقت ہے تاکہ وہ دمشق کے عوام کو قائل کرے کہ اپنی حکومت کو مزید وقت دے یا نہ دے۔
مجھے نہیں لگتا کہ یہ کامیاب ہو پائے گا، دمشق اور اس کے اطراف میں عربوں اور مختلف مذہبی گروپوں کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں اور آپریشنز کیے گئے ہیں، وہ ان کے لیے ایک سیاہ نشان بن چکے ہیں اور جولانی کے رژیم کا ریکارڈ بھی رادیکلی رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں غیر فوجی شہریوں کی سیاسی اور شہری ضروریات کو سمجھنے یا ان کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ میری پیش گوئی یہ ہے کہ یہ رژیم زیادہ دیر نہیں چل پائے گا اور بالآخر ختم ہو جائے گا۔
رپورٹر: کردوں اور جولانی حکومت کے درمیان ممکنہ معاہدہ؛ کیا اتفاق رائے ہو سکے گا؟
حسینی:جولانی، جو کہ حالیہ برسوں میں کردوں کے خلاف جنگ میں شامل رہا ہے، اب مجبور ہے کہ وہ "سریئن ڈیموکریٹک فورسز” (SDF) کے ساتھ بات چیت کرے، جن کے شمال اور مشرقی شام میں 150000سے زائد ارکان ہیں۔
میرے خیال میں، جولانی کی قیادت میں یہ قوتیں عارضی ہیں اور انہیں "آزاد اور ترقی یافتہ شام” کے قیام میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا، جہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جولانی اور اس کے گروہ دمشق میں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
کردوں اور جولانی حکومت کے درمیان معاہدے کے لیے امریکی مداخلت کی ضرورت ہوگی، فی الحال امریکہ اس بات چیت کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اب تک کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں نکلا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ کرد اور جولانی حکومت کے درمیان کیسے اتفاق رائے ہو سکتا ہے، اور اس حوالے سے کوئی واضح مستقبل نظر نہیں آتا۔ شام فی الحال تقسیم شدہ ہے اور مختلف بیرونی قوتوں کے اثر و رسوخ میں ہے۔
چاہے جولانی کی حکومت ہو یا دمشق میں کسی اور کی، انہیں کردوں کے ساتھ بات چیت کرنا ضروری ہوگا تاکہ شام کے ٹکڑے ہونے سے بچا جا سکے۔ کرد شامی سیاست کے مستقبل میں ایک طاقتور اور فیصلہ کن کردار ادا کریں گے، اور انہیں شام میں ایک شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
کردوں کی حالت اور ان کے مطالبات
شام کی حکومت نے یہ شرط رکھی ہے کہ کسی بھی معاہدے کے لیے کردوں کو اپنے ہتھیار ڈالنے ہوں گے، لیکن کرد افواج کا موقف اس کے برعکس ہے۔
"مظلوم کوبانی” اور دیگر کرد رہنماں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ شام کی تقسیم نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شامی بحران کا ایک سیاسی حل چاہتے ہیں، اور اپنی دفاعی طاقت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے ارادے کوئی جارحانہ نہیں ہیں۔ کردوں کے مطابق، "سریئن ڈیموکریٹک فورسز” (SDF) کبھی بھی حملہ آور قوت نہیں تھیں، بلکہ یہ دفاعی قوتیں تھیں جو اپنے علاقے کی حفاظت کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: ترکی اور امریکہ کا شام کے مستقبل میں کردار ادا کرنے پر تبادلہ خیال
کردوں کے لیے بہترین حل یہ ہے کہ انہیں سیاسی اور فوجی فیصلوں میں شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
اگر کردوں کو نظرانداز کیا گیا، تو وہ اپنے مستقبل کے بارے میں اپنے فیصلے خود کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
کردوں کا مقصد امن اور استحکام ہے اور وہ شام کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی مستقبل کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔