واشنگٹن (سچ خبریں) امریکہ نے میانمار میں ہونے والے مظاہروں کے پیش نظر اپنے سفارتی عملے کو اہم احکامات صادر کردیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں حالات کشیدہ ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ضروری سفارتی عملے کو فوری طور پر میانمار سے نکلنا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے فوجی بغاوت کے بعد بحران کے شکار ملک میانمار سے غیر ضروری سفارتی عملے کو انخلا کا حکم دے دیا ہے۔
یکم فروری کو میانمار میں فوج کی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ فوج کے ماتحت انتظامیہ کی کارروائیوں میں احتجاج میں شریک 520 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، عالمی طاقتوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔
احتجاج میں شریک مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ معزول جمہوری حکومت کو بحال کیا جائے۔ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو رہا کیا جائے، احتجاج کو کچلنے کے لیے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کی گئی ہیں۔ جب کہ بعض جگہوں پر براہِ راست فائرنگ کی کارروائیوں کا بھی ذکر ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے واشنگٹن سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے منتخب حکومت کے حکام کو ان کے عہدوں سے برطرف کر کے حراست میں لے لیا ہے، اس صورتِ حال میں ممکنہ طور پر فوج کے خلاف مظاہرے جاری رہیں گے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے فروری کے وسط میں سفارتی عملے میں ہنگامی فرائض انجام دینے والے افراد کے علاوہ دیگر اہلکاروں کو ان کے خاندانوں سمیت رضاکارانہ طور پر میانمار چھوڑنے کی اجازت دی تھی، اب محکمۂ خارجہ نے بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر اس اجازت نامے کو انخلا کے حکم نامے میں تبدیل کر دیا ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق میانمار سے غیر ضروری اسٹاف کی روانگی کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ حکام اور شہریوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کی حفاظت کو ممکن بنایا جائے، ان کا کہنا تھا کہ میانمار سے عملے کی روانگی کے حکم کے 30 روز کے بعد معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔
فوجی بغاوت کے نتیجے میں جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے میانمار پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، البتہ بغاوت کرنے والے فوج کے اعلیٰ حکام سفارتی دباؤ کے باوجود رویے میں نرمی نہیں لائے۔