سچ خبریں:ایک امریکی میگزین نے 2023 میں تیسری جنگ عظیم کے آغاز کے لیے پانچ ممکنہ منظرناموں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ 2022 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا بڑی طاقتوں کے درمیان فوجی تصادم کے زیادہ قریب نظر آرہا ہے۔
ایک فوجی ماہر رابرٹ فارلی نے (19Fortyfive) خبر رساں ایجنسی کے لیے ایک تجزیے میں لکھا کہ 2022 میں اور روس اور یوکرین کے درمیان فوجی تنازع کے پس منظر میں، دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بڑی طاقتوں کے درمیان فوجی تصادم کے زیادہ قریب ہوئی ہے،2023 میں شروع ہونے والی تیسری جنگ عظیم کا امکان بڑھتا جا رہا ہے جس کے فی الحال پانچ ممکنہ منظرنامے قابل فہم ہیں،اس ماہر کے مطابق تیسری جنگ عظیم شروع ہونے کی وجہ یوکرین کے اردگرد کی صورتحال ہو سکتی ہے، تاہم قلمکار نے یوکرین کے تنازعے کے دوران روس اور نیٹو کے درمیان براہ راست تصادم کے امکان کو بعید قرار دیتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک خطرناک اقدام کرنے کا فیصلہ کرے تو صورت حال تیزی سے بڑے فوجی تنازعے میں بدل سکتی ہے، اس تجزیے میں تائیوان کے ساتھ چین کے تصادم کو بھی تیسری عالمی جنگ کے آغاز کے دوسرے منظر نامے کے طور پر جانچا گیا ہے۔
فارلی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی تائیوان کے دفاع میں مضبوط موقف اور خطرناک بیان بازی پر آمادگی ظاہر کرتی ہے کہ واشنگٹن حکام واقعی تائیوان پر ممکنہ چینی حملے کے امکان سے پریشان ہیں اور کسی نہ کسی طرح خود کو ایسی صورت حال کے لیے تیار کر رہے ہیں، اس تجزیے میں ترکی اور یونان کے درمیان فوجی تنازع کو تیسری جنگ عظیم شروع کرنے کا تیسرا منظرنامہ قرار دیا گیا ہے اور اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک نیٹو کے رکن ہیں اور ایسی صورت حال میں شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کے اندر اختلاف رائے مزید تیز ہو جائے گا۔
اس تجزیے میں کوریائی جزیرہ نما میں بگڑتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کے درمیان تنازعات کوعالمی جنگ کے چوتھے اور پانچویں ممکنہ منظر نامے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یاد رہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران سیول اور پیانگ یانگ کے درمیان تنازعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور شمالی کوریا کی جانب سے باقاعدہ میزائل تجربات (2022 تک شمالی کوریا کے میزائل تجربات کی تعداد 37 تک پہنچ چکی ہے) کے اشتعال انگیز اقدامات نے جنوبی کوریا کو زبانی اور جارحانہ ردعمل ظاہر کرنے پر اکسایا ہے۔
ساتھ ہی چین اور بھارت کی سرحدوں پر آئے دن لڑائیاں جاری ہیں،اگرچہ تقریباً غیر آباد پہاڑی علاقوں میں دونوں ممالک کے علاقوں کے چھوٹے علاقوں پر کنٹرول کا حقیقی خطرہ ابھی تک واضح نہیں ہے، نہ ہی بیجنگ اور نہ ہی دہلی اس تنازعے سے پیچھے ہٹے ہیں،خبر رساں ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ 27 اکتوبر 2022 کو جاری ہونے والی ریاستہائے متحدہ کی تازہ ترین قومی دفاعی حکمت عملی میں پانچ سالوں میں پہلی بار اس ملک کے اہم دشمنوں اور اتحادیوں کی فہرست جاری کی گئی، اس دستاویز میں چین کو اہم تزویراتی حریف اور روس کو شدید خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ شمالی کوریا، ایران اور بین الاقوامی دہشت گردی اسی کے پس منظر میں چھپے ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کی توجہ ان دو جوہری طاقتوں پر مرکوز ہے۔
دسمبر کے اوائل میں نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے خبردار کیا تھا کہ یوکرین میں فوجی تنازع روس اور نیٹو اتحاد کے درمیان مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ غلطیاں خوفناک حد تک آگے بڑھ سکتی ہیں،اس حوالے سے چند روز قبل روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے بھی یاد دہانی کرائی کہ مغربی ممالک جان بوجھ کر دنیا کے مختلف خطوں میں حالات کو مزید کشیدہ بنا رہے ہیں اور افراتفری کو بڑھا رہے ہیں،روسی رہنما کا خیال ہے کہ اس طرح مغربی سیاسی اشرافیہ دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔