کابل (سچ خبریں) افغان صدارتی محل کے قریب اس وقت 3 راکٹ آ گرے جب وہاں پر نماز عید ادا کی جارہی تھی تاہم کسی قسم کے جانی نقصان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے اسپوٹنک کی رپورٹ کے مطابق کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ طالبان کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد کابل پر ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے۔
کابل کے گرین زون میں فائر کیے جانے والے راکٹس کی تیز آواز سے لوگ سہم گئے، جہاں صدارتی محل، متعدد سفارتخانے اور امریکا سفارتخانہ بھی موجود ہے۔
صدارتی محل کے آفیشل فیس بک پیچ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں درجنوں افراد کو قریبی راکٹ گرنے کی آواز کے باوجود پرسکون، نماز کی ادائیگی جاری رکھتے ہوئے دیکھا گیا۔
افغان صدر روایتی افغان لباس اور پگڑی پہنے ہوئے تھے جو راکٹ کی آواز سن کر بھی نہیں پلٹے اور تمام نمازی ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے دکھائی دیے۔
نماز کے بعد تقریر کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ طالبان نے ثابت کردیا کہ انہیں امن کی کوئی خواہش یا ارادہ نہیں ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان میر واعظ ستانکزئی نے کہا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تینوں راکٹس ایک پک اپ ٹرک سے فائر کیے گئے جن میں سے ایک نہیں پھٹا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق راکٹ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
قبل ازیں گزشتہ برس بھی صدارتی محل پر اس وقت راکٹ حملہ کیا گیا تھا جب اشرف غنی سمیت سیکڑوں افراد ایک افتتاحی تقریب میں موجود تھے جبکہ حملے کے بعد کچھ فرار ہوگئے تھے، اُس حملے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا البتہ داعش نے اس کی ذمہ قبول کی تھی۔
آج کا حملہ ایسے وقت میں ہوا جب غیر ملکی افواج کا انخلا 31 اگست کو مکمل ہونا ہے اور افغانستان بھر میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے برعکس طالبان نے رواں سال عید کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا۔
قبل ازیں دوحہ میں افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے کے بعد کابل میں موجود نیٹو نمائندوں اور 15 سفارتی مشنز نے طالبان پر حملے روکنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس عید قربان پر طالبان کو ہمیشہ کے لیئے اسلحہ چھوڑ کر امن و امان کی طرف قدم بڑھانا چاہیئے۔