نئی دہلی (سچ خبریں) بھارتی کسانوں نے مودی حکومت کے خلاف بڑا اعلان کرتے ہوئے پورے بھارت کو بند کرنے کی تیاری کرلی ہے جس کے بعد بھارتی حکومت کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی کسانوں نے مودی سرکار کو جام کرنے کی تیاریاں مکمل کر لیں، جمعہ کو پورا بھارت بند ہوگا، جس کے لئے دہلی کے اردگرد بارڈرز پر خواتین کسانوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارتی کسانوں نے بھارتی سرکار کو جام کرنے کی تیاریاں مکمل کر لیں جس کے لئے دہلی کے سرحدوں پر خواتین کسانوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی ہے جبکہ مائیں شیرخوار بچوں کو بھی ساتھ لے آئیں ہیں۔
واضح رہے کسان جمعہ کو کرفیو احتجاج کے دوران پورا بھارت بند کردیں گے جبکہ کسانوں نے نئی دہلی میں قائم رکاوٹیں ایک بار پھر توڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور کاشتکاروں نے مودی سرکار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر فصل بیج کر دکھائیں گے۔
دوسری جانب رپورٹس کے مطابق دہلی کے اردگرد ٹکری، سنگھو اور غازی پور بارڈرز پر خواتین کسانوں کی بڑی تعداد پہنچ چکی ہے جبکہ مشرقی پنجاب سے ٹکری بارڈ پر خواتین شیر خوار بچوں کو بھی ساتھ لے آئیں ہیں۔
خیال رہے کسان خواتین کا کہا ہے کہ کاشتکاروں کی تحریک نے نئی نسل کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا سکھا دیا ہے جبکہ دھرنے میں موجود کارکنوں نے مطالبات کی منظوری تک ڈٹے رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے حکومت نے گذشتہ سال ستمبر میں تین نئے زرعی قوانین منظور کیے تھے جن کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں کو نجی تاجروں کے لیے کھول دیا گیا ہے اور اناج کی ایک مقررہ قیمت کی سرکاری ضمانت کے نظام کو ختم کر دیا گیا تھا جبکہ اس کی جگہ کسانوں کو اپنا اناج کہیں بھی فروخت کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور کنٹریکٹ کھیتی کا بھی نظام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت تاجر اور کمپنیاں کسانوں سے ان کی آئندہ فصل کے بارے میں پیشگی سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔
کسانوں کو خدشہ ہےکہ سرکاری منڈیوں کی نجکاری سے تاجروں اور بڑے بڑے صنعتکاروں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور مقررہ قیمت کی سرکاری صمانت نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبوبر ہونا پڑے گا جبکہ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ کنٹریکٹ کھیتی سے رفتہ رفتہ ان کی زمینوں پر بڑی بڑی کمپنیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔
جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان قوانین سے کسانوں کو کھلی منڈی حاصل ہو جائیں گی جس سے وہ اپنی پیداوار کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں گے، لیکن کسان اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ انہیں پوری طرح واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔