بیروت (سچ خبریں) لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یوم قدس کے موقع پر اہم خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا اور خاص کر عالم اسلام سے فلسطین کی حمایت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا کے آزاد انسانوں کو چاہئیے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کو اٹھائیں اور کھل کر اس کی حمایت کریں۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز عالمی یوم القدس کی مناسبت سے لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اہم خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی یوم القدس کوئی ٹیکٹیکل یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عقیدتی، دینی، انسانی و اخلاقی موضوع ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کا قیام، اس کی جانب سے اپنے حق کے حصول پر اصرار اور قدس شریف سے اس کا ہاتھ نہ کھینچنا، ایک بنیادی رکن ہے جبکہ ان سب چیزوں میں اس کا "قیام” انتہائی اہم ہے جو پورے مزاحمتی محاذ کو قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے۔
عرب ٹی وی چینل المیادین کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملاحظہ کر رہے ہیں کہ قدس شریف میں ایک بے دفاع فریق سر تا پا مسلح دشمن کا مقابلہ کر رہا ہے جبکہ یہ ایک انتہائی اہم تبدیلی ہے کیونکہ اسرائیل سوچتا ہے کہ قدس شریف اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے اندر مقابلے کی طاقت موجود نہیں۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک اور بڑی تبدیلی قدس شریف کے محاذ میں غزہ کے مزاحمتی محاذ کا ورود ہے جبکہ اسے مزید مستحکم ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن ہمیشہ سے اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ غزہ کو قدس شریف میں رونما ہونے والے واقعات سے لاتعلق کر دیا جائے جبکہ میں فلسطینی رہنماؤں کو غزہ سے قدس شریف کی مدد پر مبنی ان کے موقف کی جانب دعوت دیتا ہوں کیونکہ یہ موضوع موجود دفاعی توازن کو قدس شریف اور مسجد الاقصی کی حفاظت کے حق میں بدل ڈالے گا۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ ایران؛ مزاحمتی محاذ میں شامل طاقتور ترین ملک ہے جبکہ اس کے اسلامی نظام حکومت کو گرانے اور اُسے اسرائیلی-امریکی بلاک میں واپس پلٹانے کے لئے سالہا سال سے کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم یہ سب کوششیں شکست سے دوچار ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے بارے بیان بازی کی تھی تو امام خامنہ ای نے کہا تھا کہ جنگ ہرگز نہیں ہو گی، درحالیکہ اب ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمے کے لئے امریکہ و اسرائیل کی جانب سے عائد کی جانے والی شرائط بھی دم توڑ چکی ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ ایران ابتدائی مراحل سے گزر چکا ہے جو اب عائد پابندیوں کا کھل کر مقابلہ کرے گا خواہ امریکہ جوہری معاہدے (JCPOA) میں واپس پلٹے یا نہ، پابندیوں کو اٹھائے یا نہ، اب ایران کے خلاف صیہونی و امریکی دشمنوں کے تمام اختیارات شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے اپنی نطنز جوہری تنصیبات پر ہونے والی تخریبکاری کا سنجیدہ جواب دیا ہے جس کا ایک واضح ترین نمونہ یورینیم کی 60 فیصد افزودگی ہے جس نے اسرائیلی رژیم کو وحشت زدہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران و سعودی عرب کے درمیان مبینہ مذاکرات کی خبریں سنی جا رہی ہیں جبکہ ایران-سعودی عرب مذاکرات ایک مثبت اقدام ہے اور ہم اس حوالے سے ہر بین الاقوامی گفتگو، یا ایران کے ساتھ عربی مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ یہ اقدام خطے میں استحکام لانے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ گذشتہ 40 سال پر محیط تجربے نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اتحادیوں کو کبھی نہیں بھولتا اور نہ ہی کبھی ان کے مفادات پر سمجھوتہ کرتا ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے اسرائیل سے لے کر خلیج فارس کے بعض ممالک تک کے خطے کے امریکی چیلوں کو پریشان ہونا چاہئے تاہم ایران کے دوست اس بات پر مکمل مطمئن ہیں کہ جو کچھ وقوع پذیر ہونے جا رہا ہے اسلامی مزاحمتی محاذ کے فائدے میں ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر تاکید کی کہ ہم ایران اور خطے یا عرب ممالک کے درمیان مذاکرات کی کھل کر حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ دوستوں کے محاذ کو طاقتور اور دشمنوں کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوران شام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام بھی اب جنگ کے مرحلے سے گذر چکا ہے جبکہ اس وقت تعمیر نو کے لئے مختلف عرب ممالک کی جانب سے شام کے ساتھ رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
سید حسن نے کہا کہ شامی حکام کے ساتھ سعودیوں کی ملاقات کی خبر بھی سننے کو ملی ہے جس کی خود شامی ہی تردید یا تصدیق کریں گے تاہم وہ بات جو یہاں کہی جانا چاہئے یہ ہے کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے (شام پر) اپنی شرائط عائد نہیں کر سکتا خصوصا ایک ایسے وقت میں جب وہ (ریاض) خود تہران کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔
انہوں نے عراق کے بارے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عراقی داعش کے دوبارہ زندہ کئے جانے کے خلاف کامیابی کے ساتھ برسرپیکار ہیں جبکہ (داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی) یہ کوششیں تاحال ناکام رہی ہیں اور اسی طرح عراقی مزاحمتی فورسز کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے یمن کے بارے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمن اپنی جوان و صادق قیادت کی بناء پر اسلامی مزاحمتی محاذ کا سرمایہ ہے درحالیکہ یمنی اس وقت جارح سعودی عرب کی جانب سے مسلط کردہ جارحیت کے ساتویں سال سے گزر رہے ہیں جبکہ بالآخر وہی اس پیکار میں فتح یاب ہونے والے ہیں کیونکہ دنیا بھر کے سامنے سوائے جنگ بندی کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ آج یمنی قوم کی جانب سے عالمی یوم القدس کے حوالے سے منعقد کی جانے والی ریلیاں ان کے موقف کو مکمل طور پر عیاں کر رہی ہیں۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی آج مزاحمتی محاذ کے استحکام اور اس حوالے سے پیش آنے والی تبدیلیوں سے شدید خوفزدہ ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ نئی امریکی حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی، خطے پر اپنا اثر ضرور ڈالے گی جو خطے میں موجود امریکی چیلوں، کہ جن میں اسرائیل سرفہرست ہے، کو مزید پریشان کر کے رکھ دے گی۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال کا مستحکم اتحاد اس وقت منتشر ہو چکا ہے جس نے جارحانہ کے بجائے اب دفاعی حکمت عملی اپنا لی ہے۔
حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی دشمن بری طرح شکست کھا چکا ہے جس کی واضح نشانیوں میں سے ایک مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کا اندرونی بحران ہے؛ جیسا کہ محاکمے اور قید سے بچنے کے لئے وزارت عظمی پر باقی رہنے کی بنجمن نیتن یاہو کی کوششوں کے باعث وہاں کا انتخابی عمل کئی مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج شکست سے دوچار دشمن کی (صیہونی) رژیم میں بہت بڑی دراڑیں پڑ چکی ہیں جو اس رژیم کے سقوط و خاتمے کی علامتوں میں سے ایک اور علامت ہے جبکہ بعض صیہونی تجزیہ نگار اسرائیل کے اندر چھڑنے والی ایک وسیع خانہ جنگی کی بات کر رہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے صیہونی جوہری تنصیبات ڈیمونا پر ہونے والے حالیہ حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیمونا کے نزدیک میزائلوں کا گرنا اسرائیلی ہوائی دفاع کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اگر خطے میں جنگ چھڑ گئی تو ہر ایک محاذ سے ہزاروں کی تعداد میں میزائل فائر کئے جائیں گے، کیا اسرائیلی ہوائی دفاع ان میزائلوں کا مقابلہ کر پائے گا؟
انہوں نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں گذشتہ ہفتے گرنے والے پل کی جانب بھی اشارہ کیا جس کے باعث دسیوں صیہونی مارے گئے تھے اور کہا کہ اس حادثے نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اسرائیل کا اندرونی محاذ ممکنہ جنگی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں!
سید حسن نے اسرائیل کے عنقریب خاتمے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس غاصب رژیم اور ناجائز اولاد کی بیماریاں اب سالہا سال گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں جبکہ اس راستے میں اپنے حق پر فلسطینی جوانوں، مزاحمتی محاذ اور ہمارا ایمان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے درحالیکہ ایمانی طاقت کے توازن کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں، کے حوالے سے ہمارا پلڑا ہمیشہ سے بھاری ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے مقابلے میں بعض عرب ممالک کی سُستی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تھکنے کی کوئی بات ہی نہیں، بعض عرب ممالک نے حتی اسرائیل کے مقابلے میں تلوار بھی نہیں کھینچی کہ اب یہ کہا جائے کہ وہ تھک گئے ہیں!
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ آج غاصب صیہونی ریاست، مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں اور محاذ جنگ پر غزہ کی واپسی سے شدید پریشان ہے جبکہ ایران کے مقابلے اسرائیل کی تزویراتی شکست؛ اس ریاست کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی اقسام میں سے ایک ہے تاہم دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں حوصلے کی اس قدر اشد کمی ہے کہ اس کے حصول کے لئے اُنہیں مسلسل فوجی مشقوں کا انعقاد کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی دشمن کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کے اقدام نے کوئی نتیجہ فراہم نہیں کیا کیونکہ وہ (عرب) ممالک خود کسی ایسے فریق کی تلاش میں ہیں جو ان کی حفاظت کر سکے لہذا اس اقدام کے ذریعے اس (صیہونی) دشمن کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ عالمی یوم القدس کے حوالے سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم مسئلۂ فلسطین کے ساتھ آکھڑے ہوں جبکہ پوری دنیا کے آزاد انسانوں کو چاہئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کو اٹھائیں اور کھل کر اس کی حمایت کریں۔
لبنانی مزاحمتی فورس کے سربراہ نے لبنان و غاصب صیہونی حکومت کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حزب اللہ کا موقف ان مذاکرات میں مداخلت نہ کرنا اور اس مسئلے کو لبنانی حکومت کے سپرد کر دینا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ یہ لبنان اور مزاحمتی محاذ، دونوں کے فائدے میں کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے ساتھ سرحد کے تعین کے حوالے سے ہونے والے ہر مذاکرات سے دور رہیں۔
انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری پر عمل اور اپنے حقوق کے حصول پر اصرار کرے جبکہ ہم نے صرف تب ہی (مقبوضہ) شبعا اور تلال کفرشوبا فارمز کے حوالے سے اقدام اٹھایا تھا جب حکومت نے کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں علاقے لبنانی (اور مقبوضہ) ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آخر میں اسرائیل کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری طاقت روز بروز بڑہتی جارہی ہے اس لیئے اسرائیل اگر کسی قسم کی جارحیت کے بارے میں سوچے گا تو اسے سخت جواب دیا جائے گا اور ہم ہر طرح کی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیئے مکمل طور پر تیار ہیں۔