سچ خبریں: غزہ کے عوام نے جنگ اور قحط کے سائے میں ویرانوں میں عید الاضحی کی نماز ادا کی۔
العربی الجدید کی رپورٹ کے مطابق آج صبح ہزاروں فلسطینی نمازیوں نے غزہ کی پٹی میں تباہ شدہ مساجد اور مہاجرین کے کیمپوں کے قریب عید الاضحی کی نماز ادا کی۔
اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے غزہ کے عوام پر مسلط کردہ وحشیانہ جنگ اور محاصرے کے سبب، یہ لوگ عید الاضحی کی خوشیاں نہیں منا سکتے اور نہ ہی قربانی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شرمیلا فاروقی اور سائرہ یوسف کا عید کے موقع پر فلسطین سے اظہار یکجہتی
انسانی حقوق کے کارکنوں نے کچھ نماز گاہوں میں بچوں کے درمیان تحائف تقسیم کیے تاکہ انہیں خوش کر سکیں، غزہ کے ایک بے گھر شہری اور عید قربان کی نماز میں شریک حاج احمد حسن نے العربی الجدید کو بتایا کہ ہمارے بہت سے لوگ شہید ہو چکے ہیں، ہمارے گھر تباہ ہو گئے ہیں اور عید الفطر کے بعد، عید الاضحی دوسری عید ہے جو غزہ میں تباہ کن جنگ کے دوران آ رہی ہے؛ لیکن ہم ہر حالت میں اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں نیز اس کی مدد کے منتظر ہیں۔
ایک اور نمازی علی اسامہ نے کہا کہ پچھلے سال اسی دن ہم نے اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ قربانی کی تقریب منائی تھی لیکن آج ہمارے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا بھی مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض حکومت نے ہمارے خلاف انتہائی وحشیانہ جرائم کیے ہیں اور عالمی برادری نے ہمیں مایوس کیا ہے؛ لیکن اس کے باوجود، ہمارا ایمان اور اپنے حق پر یقین کبھی کمزور نہیں ہوا اور ہم اس راستے میں چلتے رہیں گے چاہے اس کی ہمیں جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے، ہم ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کریں گے۔
غزہ کے ایک اور شہری سالم عبدالعزیز نے کہا کہ ہمارے لیے عید دیگر دنوں کی طرح ہے؛ کیونکہ ہم اس وقت بھی بے گھر اور مظلوم ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، دنیا نے ہمیں مایوس کیا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اللہ ہمیں مایوس نہیں کرے گا ، اس لیے ہم اس کی تقدیر پر راضی ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ کے لوگ اسی غم و اندوہ کے ساتھ عید الاضحی منا رہے ہیں جیسے انہوں نے عید الفطر منائی تھی جبکہ اس وقت ان کا درد و رنج مزید بڑھ گیا ہے۔
عید الفطر کے موقع پر غزہ کے لوگ بین الاقوامی دباؤ کی توقع کر رہے تھے تاکہ اسرائیلی حکومت کی وحشیانہ جارحیت رک سکے اور جنگ بندی ہو سکے لیکنعید الاضحی پر یہ چھوٹی سی امید بھی نہیں دکھائی دیتی، اس کے باوجود وہ اپنے ایمان کو برقرار رکھتے ہیں۔
شمال مشرقی غزہ سے بے گھر ہونے والی ایک 40 سالہ فلسطینی خاتون مریم حمدان نے کہا کہ پچھلے مہینوں میں ہونے والی بار بار بے دخلیوں کے دوران، وہ کپڑے جو ہم نے عید الفطر پر بڑی مشکل سے اپنے بچوں کے لیے خریدے تھے، تباہ ہو گئے۔ میری چھوٹی بیٹی نادین کا ایک سرخ لباس تھا جس کے کھو جانے کے بعد سے وہ شدید غمگین ہے، اس سال نادین کی طرح دوسرے غزہ کے بچے بھی عید کے کپڑے نہیں پہن سکتے اور ان کے لیے عید کی تعطیلات کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
انہوں نے عالمی برادری کی خاموشی اور عرب حکومتوں کے کمزور موقف کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب میں بچی تھی، میری دادی ہمیشہ کہتی تھیں کہ ایک مسلمان تب ہی خوش ہو سکتا ہے جب اس کا مسلمان بھائی بھی خوش ہو لیکن جو کچھ ہم اس وقت دیکھتے ہیں وہ اس کے برعکس ہے ، عرب اور اسلامی ممالک فلسطینیوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
غزہ میں جانوروں کے داخلے پر قابضین کی پابندی
دوسری جانب، غزہ کی پٹی میں سرکاری اطلاعاتی دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ قابض حکومت کی جانب سے غزہ میں قربانی کے جانوروں کے داخلے پر پابندی اور عید قربان کی تقریبات سے فلسطینی عوام کو محروم کرنا، ایک بار پھر صہیونی اور امریکی حکومت کے گھناؤنے اور مجرمانہ چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔
غزہ کی حکومت نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے تمام کراسنگ پوائنٹس، بشمول رفح بارڈر کراسنگ کو بند کرنا اور جانوروں کے داخلے کو روکنا، ایک نیا جرم ہے جو قابض حکومت کی سیاہ کارکردگی میں شامل ہوا ہے، یہ نیا جرم صہیونیوں کی نسل کشی کے جنگ اور 18 سال سے غزہ پر مسلط غیر منصفانہ محاصرے کی کڑی میں ایک اور وحشیانہ اقدام ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عید قربان کی قربانی کی تقریبات مسلمانوں کی رسوم و ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہیں اور ان کی روک تھام اسلامی اصولوں اور انسانی اقدار کی بے حرمتی اور توہین ہے۔
یہ صورتحال عالمی برادری کی جانب سے فوری مداخلت کی متقاضی ہے تاکہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی جنگ کو روکا جائے اور مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو سکے۔
غزہ کی حکومت نے صہیونی اور امریکی حکومت کو فلسطینی عوام اور اسلامی مقدسات کے خلاف ان جرائم کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا اور عالمی برادری، اقوام متحدہ، بین الاقوامی تنظیموں اور آزاد ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض حکومت اور امریکی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ غزہ پر نسل کشی کی جنگ بند ہو، زمینی راستے کھلیں اور غزہ کا محاصرہ ختم ہو۔
دشمن غزہ کے ایمان اور صبر کے سامنے جھک جائے گا
عید قربان اس سال ایسی حالت میں آئی ہے کہ اسرائیلی حکومت کی وحشیانہ جرائم کی وجہ سے 130000 سے زائد فلسطینی شہری شہید یا زخمی ہو چکے ہیں اور اسی بنیاد پر مسلمان عید الاضحی کو پہلے کی طرح خوشی سے نہیں منا سکتے۔
اسی سلسلے میں، حال ہی میں مسجد الاقصیٰ کے خطیب اور قدس کی اعلیٰ اسلامی کمیٹی کے صدر، شیخ عکرمہ صبری، نے عید الاضحی کے موقع پر فلسطینی اور تمام عرب و اسلامی اقوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے خلاف دشمن کی تباہ کن جنگ کے پیش نظر، ہم عرب اور اسلامی قوموں سے اپیل کرتے ہیں کہ عید قربان کی رسومات کو مذہبی شعار، نماز اور قربانی تک محدود رکھیں اور جشن و خوشی نہ منائیں۔
شیخ صبری نے کہا کہ ہمیں غزہ کی پٹی اور دیگر فلسطینی علاقوں میں مصیبت زدہ اپنے بھائیوں کے لیے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے۔
دنیا بھر کے میڈیا نے غزہ کی ویرانیوں میں عید الاضحی کی نماز کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ صہیونی دشمن کے غزہ اور مغربی کنارے میں ہولناک اور لرزہ خیز جرائم، فلسطینی قوم کے اپنے وطن اور قدس شریف کی آزادی کے عزم و ارادے کو توڑ نہیں سکتے۔
مزید پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں عیدالاضحی کی نماز میں ایک لاکھ فلسطینیوں کی شرکت
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے مرد و خواتین اور نوجوان، اپنے معصوم و مظلوم بچوں کے ساتھ، عید قربان کی نماز کو غمگین، زخمی اور درد میں ڈوبے ہوئے، لیکن مضبوط اور اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔ صہیونی دشمن اور اس کے ساتھی، فلسطینی قوم کے ایمان، صبر اور عزم کے سامنے جھک جائیں گے۔