بغداد (سچ خبریں) عراق میں امریکی افواج پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب عراقی عوام نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کو جب تک باہر نہ نکال پھینکیں تب تک سانس نہیں لے گی، یہ محسوس ہوتا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے مخالف اداروں نے امریکی فوجیوں کو طاقت کا استعمال کرکے عراق سے بھگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ خبر آئی کہ عین الاسد چھاونی پر تین دن کے اندر تین حملے ہوئے اور حملے تب ہوئے جب امریکا کے مشرق وسطی کے امور کے نمائندے بریٹ میک گورک ایک وفد کے ساتھ بغداد کے دورے پر پہنچے ہیں، وہ عراق کی مصطفی الکاظمی حکومت سے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے مسئلے پر گفتگو کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ حالیہ حملہ جس میں کسی کی جان نہیں گئی، بائیڈن کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک وہاں 30واں حملہ تھا، شاید سب سے خطرناک حملہ وہ تھا جو شمالی عراق کے شہر اربیل میں امریکی چھاونی پر ڈرون طیارے سے کیا گیا تھا، اس حملے میں دو غیر ملکیوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی قابل توجہ مسئلہ ہے کہ یہ کشیدگی تب بڑھ رہی ہے جب امریکی میڈیا میں یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ویانا میں ایٹمی مسئلے پر مذاکرات سخت مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لئے تیار نہیں ہے، عراقی فورسز کی ٹریننگ جیسے بہانے سے وہ عراق میں اپنے فوجیوں کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اگر حملے اسی طرح جاری رہے تو امریکا کے لئے عراق میں رک پانا نا ممکن ہو جائے گا۔
عراق سے امریکا کو شرمناک طریقے سے نکلنا پڑے گا جس طرح 2011 میں عراقیوں کے حملے سے ڈر کر اسے عراق سے فرار ہونا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ عراقی پارلیمنٹ جنوری 2020 میں ایک قرارد منظور کرکے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر تاکید کر چکی ہے۔