سچ خبریں: فلسطین لیبریشن فرنٹ(ساف) کے پانچ ممالک میں سابق سفیر نے صیہونی جنگی کونسل سے ہونے والے تسلسل سے استعفوں کی رفتار کو سیاسی اختلافات کی گہرائی نہیں بلکہ غزہ جنگ میں یقینی ناکامی قرار دیا ہے۔
ترکی میں فلسطین کے سابق سفیر اور بیرون ملک مقیم فلسطینی عوامی کانگریس کے سکریٹریٹ کے رکن نے غزہ جنگ کے انتظام کے مسئلے پر صہیونی حکومت کی جنگی کونسل سے چار وزراء کے استعفیٰ دینے پر زور دیا کہ قابضین آٹھ ماہ کے مسلسل جرائم اور نسل کشی کے بعد بھی فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
پانچ ممالک میں فلسطینی اتھارٹی کے سابق سفیر ربحی حلوم نے فلسطینی خبررساں ایجنسی شہاب سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں جنگ کی منظر کشی کرتے ہوئے اسرائیلی جنگی کونسل کے وزراء کے مسلسل استعفوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس بحران کو صرف سیاسی اختلافات نہیں بلکہ مسلسل 250 دن کے جرائم اور نسل کشی کے بعد فلسطینی قوم کے خلاف جنگ میں یقینی شکست سے بچنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حکومت کے جرائم میں کینبرا کے ملوث ہونے کے خلاف آسٹریلیا کے 300 ملازمین کا خط
بیرون ملک مقیم فلسطینی عوامی کانگریس کی سکریٹریٹ کے رکن نے غزہ کی پٹی میں قابضین کی نسل کشی کو عالمی برادری کے سامنے اور 400 ملین عربوں کی حیرت کے ساتھ 22 عرب ممالک کے عملی اقدامات کے بغیر خاموشی کے تناظر میں لرزہ خیز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ صہیونیوں کے خلاف عملی ردعمل کی عدم موجودگی نہ صرف فلسطین کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ نیز عالمی امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے اس اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ نہ صرف صہیونی حکومت اپنے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف جنگ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی ہے بلکہ ہر روز غزہ میں مقتدر مظلوم عوام اور مجاہدین کی جانب سے مسلسل حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔
ترکی میں فلسطین کے سابق سفیر نے غزہ جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بنیامین نیتن یاہو کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے بنی گینٹز، آئزنکوٹ اور دیگر وزراء کے کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد بن گویر اور اسموٹریچ جیسے دائیں بازو کے انتہا پسند سیاسی عناصر کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی ردوبدل کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بلنکن بھی غزہ میں تباہی کی دلدل سے اسرائیل کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
ربحی حلوم نے اپنی گفتگو کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے گزشتہ دو ماہ کے دوران مقبوضہ علاقوں کے آٹھویں علاقائی دورے پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اسرائیل کو عالمی برادری کے سامنے جنگی جرائم کی مرتکب حکومتوں کی بلیک لسٹ سے بچانے اور جنگ کی روک تھام کے لیے اپنی نام نہاد سفارتی کوششوں کو دکھانے نیز اس حکومت کو فلسطینی مزاحمت کے مہلک میزائل حملوں میں جانی و مالی نقصان سے بچانے کے لیے جنگ بندی کی تجویز پیش کر رہا ہے۔
اس فلسطینی اہلکار نے غزہ میں قابضین کے غیر معمولی وحشیانہ جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نسل کشی تاریخ ساز ہے اور امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے زیر غور جنگ بندی کی تجویز کا مقصد بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کو غزہ جنگ کی دلدل سے عارضی طور پر بچانا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے نہ کہ مستقل جنگ بندی ۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی مزاحمت نے کئی بار قابضین اور اس حکومت کے مغربی اتحادیوں کو علاقائی ثالثوں کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ مزاحمت اپنے تین شرائط پر قائم ہے جن میں جنگ کی مستقل روک تھام، غزہ سے قابضین کا مکمل انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہیں اور وہ صرف ان شرائط کے پورے ہونے پر جنگ بندی قبول کریں گے۔
مزید پڑھیں: عراق صیہونی جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اتحاد کے قیام کے لئے کوشاں
ربحی حلوم نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام اور مزاحمت کی جنگ اور غزہ میں اپنے مطالبات اور شرائط کی تکمیل تک جاری رہے گی اور غزہ کی پٹی نے تاریخ کے دوران حملہ آوروں کے ساتھ سینکڑوں جنگیں اور لڑائیاں دیکھی ہیں اور تاریخ کے اس طویل عرصے میں کبھی بھی شکست قبول نہیں کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مضبوطی سے کھڑی ہے۔