کابل (سچ خبریں) افغان صدر اشرف غنی نے امریکا کے پیش کردہ امن منصوبے کو غیرجمہوری اور بیہودہ قرار دیتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے اور کسی بھی ایسے حل کی بھرپور مخالفت کی ہے جس کے تحت ان کی منتخب حکومت کو غیرمنتخب جانشینوں کے لیے حکومت چھوڑنی پڑے۔
تفصیلات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے امریکا کا پیش کردہ امن منصوبہ مسترد کردیا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر وہ آئندہ 6 ماہ میں نئے صدارتی انتخابات کی تجویز پیش کریں گے۔
دو سینئر سرکاری عہدیداروں نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ غنی اگلے ماہ ترکی میں ہونے والے بین الاقوامی اجتماع میں اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ان کی منتخب حکومت کو عبوری انتظامیہ سے بدلنے کی امریکی تجویز کو مسترد کردیں گے۔
امریکا نے گزشتہ سال تقریباً دو دہائیوں کے بعد یکم مئی تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر اتفاق کیا تھا اور اس وقت امریکی انتظامیہ حکومت اور طالبان کے مابین جنگ ختم کرنے کے لیے ایک امن معاہدے پر دباؤ ڈال رہی ہے، قطر میں افغان فریقین کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک ایسی تجویز پیش کی جس میں کابل حکومت کی جگہ عبوری انتظامیہ ہو گی لیکن اشرف غنی نے کسی بھی ایسے حل کی بھرپور مخالفت کی ہے جس کے تحت ان کی منتخب حکومت کو غیرمنتخب جانشینوں کے لیے حکومت چھوڑنی پڑے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم استنبول کے اجلاس میں یہ جوابی تجویز پیش کرنے جا رہے ہیں کہ اگر طالبان سیز فائر پر راضی ہوتے ہیں تو تو جلد از جلد صدارتی انتخابات کرا دیے جائیں۔
ایک اور افغان سرکاری عہدیدار نے کہا کہ صدر کبھی بھی اس سے دستبردار ہونے پر راضی نہیں ہوں گے اور ان کا ماننا ہے کہ آئندہ کوئی بھی حکومت سیاسی معاہدے کے بجائے جمہوری عمل کے ذریعے تشکیل دی جانی چاہیے۔
ایک تیسرے سینئر عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ غنی کی ممکنہ تجویز میں جلد صدارتی انتخابات شامل ہوں گے البتہ یہ نہیں بتایا کہ یہ انتخابات کب تک کرائے جائیں گے، انہوں نے مزید بتایا کہ غنی نے پہلے ہی زلمے خلیل زاد سے اپنا روڈ میپ شیئر کیا تھا۔
امریکا نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ سال طالبان سے جس معاہدے پر اتفاق کیا تھا اس کی مدت کے خاتمے میں اب محض کچھ ہتے باقی ہیں اور امرکا کابل حکومت اور طالبان کی اقتدار میں شراکت داری یقنی بنانے کے لیے علاقائی حمایت کا مطالبہ کررہا ہے، لیکن سفارت کاروں اور غیر ملکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ اشرف غنی کی حمایت کے بغیر امریکی منصوبوں پر آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔
اس خطے کے دورے کے دوران زلمے خلیل زاد دوحہ اور اسلام آباد میں بھی قیام کریں گے اور آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی شمولیت کی حامل کانفرنس کے ترکی میں انعقاد پر اصرار کریں گے۔
افغان عہدیداروں نے کہا کہ اشرف کی جوابی تجویز کے طور پر ان کی حکومت اقوام متحدہ سے نئے انتخابات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لیے کہے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسے تمام فریقین نے قبول کر لیا ہے، صدارتی محل کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
2001 کے آخر میں افغان مخالفین اور امریکی فضائی حملوں کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیے جانے والے طالبان غیر ملکی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت سے برسر پیکار ہے، طالبان جنگ بندی کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ براہ راست عبوری حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔
متنازع صدارتی انتخابات کے بعد گزشتہ سال مارچ میں اشرف غنی نے دوسری پانچ سالہ مدت کے لیے صدر کے عہدے کا حلف لیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ یکم مئی سے پہلے اپنے منصوبوں پر نظرثانی کر رہی ہے کیونکہ گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ مئی 2021 تک افغانستان میں موجود بقیہ ڈھائی ہزار فوجی بھی وطن واپس لوٹ جائیں گے ۔
دوسری جانب طالبان خبردار کر چکے ہیں کہ اگر امریکا انخلا کے لیے ڈیڈ لائن کو پورا نہیں کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔