دوحہ (سچ خبریں) افغانستان میں جہاں ایک طرف طالبان کی جانب سے ملک میں قبضہ کیا جارہا ہے اور ملک بھر میں آئے دن سینکڑوں افراد ہلاک ہورہے ہیں وہیں دوسری طرف ایک بار پھر قطر کے شہر دوحہ میں افغان اور طالبان رہنماؤں کے مابین افغان امن عمل مزاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں افغان امن عمل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے آغاز میں کہا کہ آئیے! امن کے عمل کو جاری رکھنے اور لوگوں کے قتل کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کریں۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ کیونکہ ہم خون سے اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتے اور ہم اس ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے، اس موقع پر طالبان کے نائب رہنما اور مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر نے پیشرفت نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن پھر بھی اُمید پیدا ہونی چاہیے اور طالبان مذاکرات کے مثبت نتائج کے لیے کوششیں کریں گے۔
ایک ذرائع کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی دوحہ کا سفر کرنے والے تھے لیکن وہ روانہ نہ ہوسکے، ایک نمائندے نے بتایا کہ مذاکرات کے وقت افغانستان کے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد موجود تھے۔
دوحہ میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی ترجمان ناجیہ انوری نے بتایا کہ اعلیٰ سطح کا وفد یہاں دونوں فریقین سے بات چیت کرنے، ان کی رہنمائی کرنے اور (حکومت کی) مذاکراتی ٹیم کی مدد کرنے کے لیے یہاں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ مذاکرات تیزی سے مکمل ہوں اور تھوڑے ہی عرصے میں دونوں فریق کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور ہم افغانستان میں پائیدار امن کا دور دکھیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا تھا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور ہماری ترجیح یہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسری جانب سے مسائل کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی اور مخلصانہ خواہش ہونی چاہیے۔
محمد نعیم نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
ملا عبد الغنی برادر نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ جب ہم اپنے بڑے اہداف کو حاصل کرتے ہیں تو ہمیں تفصیلات سے غور کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مسلسل پیش قدمی کرنے والے افغان طالبان نے ملک کے 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔
طالبان کے اس دعوے کی تصدیق یا تردید کرنا ناممکن ہے لیکن مذکورہ بیان سابقہ دعوؤں کی نسبت کہیں زیادہ مصدقہ معلوم ہوتا ہے جہاں ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 421 اضلاع اور ضلعی مراکز میں سے ایک تہائی پر وہ قبضہ کر چکے ہیں۔