سچ خبریں:اقوام متحدہ کے سابق نائب سیکرٹری جنرل اور عراق میں انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر ہانس فون اسپونک نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری قتلِ عام کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ویٹو نظام میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
اناطولیہ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سابق نائب سیکرٹری جنرل ہانس فون اسپونک نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ناکامی، خاص طور پر غزہ میں صیہونی جرائم کو روکنے میں، ایک بار پھر اس عالمی ادارے میں جامع اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکہ کو غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد ویٹو کرنا چاہیے تھی؟ امریکی سنیٹر کا کیا کہنا ہے؟
انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کا قتلِ عام عالمی قوانین کو کھلے عام نظرانداز کر رہا ہے، اور اقوام متحدہ اس معاملے میں غیر مؤثر دکھائی دے رہی ہے۔
ویٹو نظام پر شدید تنقید
فون اسپونک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ویٹو نظام یا تو مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے یا کم از کم کسی قرارداد کو ویٹو کرنے کے لیے ایک سے زیادہ مستقل رکن کو مخالف ووٹ دینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی تجویز بھی زیر غور ہے، جس میں ویٹو کا عمل دخل نہ ہو۔
اقوام متحدہ کی مغربی جانبداری
فون اسپونک نے اقوام متحدہ کی موجودہ پالیسیوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ مغربی مفادات کے گرد گھوم رہا ہے، اور خاص طور پر امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں نے اقوام متحدہ کو ناکارآمد بنا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ایک جامع اصلاحاتی پیکج پیش کیا ہے، جو حقیقی تحقیق اور حقائق پر مبنی ہے اور جیوپولیٹیکل نظریات سے آزاد ہے۔
مزید پڑھیں: سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیوں کیا گیا؟
واضح رہے کہ غزہ میں جاری بحران اور اقوام متحدہ کی ناکامی نے عالمی برادری کو اس ادارے کے بنیادی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا ہے، ویٹو نظام میں تبدیلی کے بغیر اقوام متحدہ کا مؤثر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔