سچ خبریں:ارب پتی اور ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے یوکرین میں 2014 میں حکومت کی تبدیلی کو ایک بغاوت قرار دیا جس میں بظاہر 2010 کے انتخابات مبہم تھے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دراصل ایک بغاوت تھی۔
مسک نے یہ ٹویٹ اس صارف کے جواب میں لکھا جس نے شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر جان مرشیمر کا مضمون شائع کیا۔ اس مضمون کا عنوان ہے یوکرین کی جنگ کا ذمہ دار مغرب کو کیوں؟ اس کا استدلال ہے کہ نیٹو کی توسیع اور یوکرین کی سیاست میں مغرب کی شمولیت کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کا باعث بنی۔
یونیورسٹی کے اس پروفیسر کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے لیے یوکرین کے جمہوری طور پر منتخب صدر کی بطور ماسکو حامی سیاست دان کی غیر قانونی معزولی ناقابل برداشت تھی۔ یونیورسٹی کے اس پروفیسر نے تختہ الٹنے کو بغاوت قرار دیا اور ایسا لگتا ہے کہ مسک جزوی طور پر اس سے متفق ہیں۔
رشاٹوڈے ویب سائٹ نے اس تناظر میں لکھا اگرچہ 2010 کے انتخابات جس میں یانکووچ کو صدر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا اسے یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم نے جمہوریت کا ایک متاثر کن مظاہرہ قرار دیا تھا لیکن یوکرائنی علاقوں کے اس سیاست دان کے ساتھ مغرب کے تعلقات پارٹی یورپی یونین کے ساتھ 2013 کے اقتصادی تعاون کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے سے خراب ہو گئے۔
اس سے قبل اس امریکی کاروباری نے ٹویٹ کیا تھا کہ وکٹوریہ نولینڈ کے علاوہ کوئی اور نہیں یوکرین میں جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔ نولینڈ نے کرائمیا میں فوجی تنصیبات پر یوکرین کے حملے کے لیے واشنگٹن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔