سچ خبریں: مغربی کنارے میں حماس تحریک کے ایک رہنما نے اس تحریک کے رہنماؤں پر قطر چھوڑنے اور اپنے دفاتر کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے دباؤ کی تردید کی۔
مغربی کنارے میں فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک کے رہنماوں میں سے ایک زاہر جبارین نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس تحریک کے دفاتر کی قطر سے ترکی منتقلی کے لیے حماس پر دباؤ سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے پاس منتقلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اس کے قطر سے باہر اپنے دفاتر نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا فلسطینی عوام طوفان الاقصی آپریشن سے خوش ہیں؟
انہوں نے بعض جماعتوں کی طرف سے فلسطینی مزاحمت کے خلاف نفسیاتی جنگ چھیڑنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایسی افواہوں کا مقصد مزاحمتی گروہوں پر دباؤ بڑھانا ہے۔
جبارین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فلسطینی مزاحمت جنگ بندی مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے میں اپنی شرائط پر پوری طرح عمل کرتی ہے اور کہا کہ حماس اس سلسلے میں اپنی کسی شرط سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
اس حوالے سے حماس کے قریبی ایک فلسطینی ذریعے نے المیادین کے ساتھ بات چیت میں تاکید کی کہ بعض غیر ملکی اور عرب میڈیا میں اس تحریک کے رہنماؤں پر قطر چھوڑنے کے لیے دباؤ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں درست نہیں ہیں۔
متذکرہ ذریعہ نے نشاندہی کی کہ حماس کے سیاسی رہنما قطر کے علاوہ کسی اور جگہ کی تلاش میں نہیں ہیں اور اس تناظر میں جو افواہیں پھیلائی گئی ہیں وہ میڈیا کی جنگ ہے تاکہ جنگ کےمکمل خاتمہ اور غزہ سے قابض افواج کا انخلا پر مبنی اس تحریک کے مطالبات کے سلسلے میں اس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
اس سے قبل امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ حماس قطر سے اپنے دفاتر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے اور اس نے اس حوالے سے دو بیرونی ممالک سے رابطہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: طوفان الاقصی نے صیہونیوں کے ساتھ کیا کیا ہے؟صیہونی اخبار کی حیران کن رپورٹ
اس اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ قطری اور مصری حکام نے حماس پر جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر اسے قبول نہ کیا گیا تو حماس کے دفاتر اور رہنما قطر چھوڑ دیں۔