سچ خبریں: ترک یونیورسٹی کی پروفیسر اور تجزیہ کار نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم میں شریک ہے اور اس علاقے کی تازہ ترین صورتحال نے اقوام متحدہ کے ڈھانچے کی نا اہلی اور اس میں اصلاح کی ضرورت کو مزید آشکار کیا ہے۔
صیہونی حکومت کے روز روز کے جرائم کے خلاف 7 اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تحریک کے عظیم اور حیران کن آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز کے بعد اس حکومت نے غزہ کے خلاف خونریز جنگ کا آغاز کیا،غزہ کی پٹی پر صہیونی فوج کے حملوں میں اب تک کم از کم 12 ہزار فلسطینی شہید اور 28 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ان مسلسل حملوں اور بجلی کے جنریٹرز کو چلانے کے لیے درکار ایندھن کی کمی کی وجہ سے غزہ میں کم از کم 22 ہسپتال اور 49 مراکز صحت نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوئی جلدی نہیں
غزہ کی صورتحال کا تجزئی کرتے ہوئے استنبول کی آیڈین یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ہزار ورل جین نے اس علاقے کی صورتحال اور صیہونی حکومت کو امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل نے غزہ میں جو کچھ کیا ہے وہ کسی پلیٹ فارم پر ،کسی بھی قانون میں اور کسی بھی انسانی ضمیر میں قابل دفاع نہیں ہے،یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت اور امریکہ مکمل طور پر متفق نہیں ہیں لیکن جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک امریکہ کی جانب سے تل ابیب کی ہر طرح کی حمایت کرکے واشنگٹن نے اپنے اوپر بہت سی تنقیدیں مول لی ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسی صورتحال میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے مہلک حملوں کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
ترک یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عالمی برادری صیہونی حکومت کے غیر منطقی حملوں کی عادی ہے، مزید کہا کہ اس معاملے کو قانون کے دائرے سے دیکھنا چاہیے اور شہریوں کے جینے کے بنیادی حقوق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
فرانسیسی صدر کی جانب سے غزہ کے خلاف حملے روکنے کی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ توقع ہے کہ جرمنی بھی اسی طرح کے معاملے کی درخواست کرے گا۔
انہوں نے غزہ کے عوام کے خلاف صیہونیوں کے جرائم کی روک تھام میں بین الاقوامی اداروں کی نااہلی کے حوالے سے تاکید کی کہ آج کے دور میں بین الاقوامی اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ فعال، تیز رفتار اور زیادہ منصفانہ طریقے سے کام کریں۔
ہزار ورل جین نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی وجہ سے پابندیوں میں قانونی خامی ہے اور چونکہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دینے کے مقصد سے کام کرتا ہے اس لیے پابندیوں کا نفاذ ایک مشکل مسئلہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے مزید فعال اور منصفانہ نظام بننے کے لیے اقوام متحدہ کی مدد کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا اور ساتھ ہی ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت پر زور دیا جو ایسے حالات میں حل تلاش کرنے کے لیے دوسرے میکانزم کو متحرک کریں۔
ڈاکٹر ورل جین نے صیہونی حکومت سے وابستہ بین الاقوامی میڈیا کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کو پیش کرنے کے لیے ان ذرائع ابلاغ میں زہر آلود لٹریچر استعمال کرنے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 750 صحافیوں نے حال ہی میں ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں جس میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں صحافیوں کے قتل اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی میڈیا کوریج میں دوہرے معیار کی مذمت کی ہے۔
نتن یاہو اور اسرائیلی حکومت کے دیگر حکام کی جانب سے حماس کا داعش دہشت گرد گروہ سے موازنہ کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا فلسطین کی حقیقت کے منافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگوں کی خبروں کی قدر ہوتی ہے، لیکن انسانی جانوں کی قیمت ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے،یہی سب سے زیادہ اتحاد کا طلبگار ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنا کیوں نہیں چاہتا؟
ڈاکٹر ورل جین نے اپنے بیان کے ایک اور حصے میں اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے ریاض میں ہونے والے حالیہ اجلاس کا بھی حوالہ دیا اور اس اجلاس کو قاہرہ امن اجلاس کے بعد سب سے اہم اور سب سے بڑا اجلاس قرار دیا۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سفارتی مذمت سے بالاتر اقدامات کی ضرورت ہے، زور دیا کہ سیاسی اور اقتصادی پابندیوں اور صیہونی حکومت کی مکمل ناکہ بندی ہونا چاہیے۔
آخر میں ڈاکٹر ہزار نے غزہ کی پٹی کے لیے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی اپیل کی۔