سچ خبریں:پاکستان ، چین، ایران اور دیگر 29 ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا، جس میں روس سے یوکرین تنازع ختم کرنے کا کہا گیا تھا۔
یوکرین اور مغربی ممالک کی درخواست پر بلائے گئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 11ویں ہنگامی اجلاس میں دو روز میں یوکرین میں قیام امن اور روسی فوجیوں کے انخلا سے متعلق قرارداد پر بحث کی گئی، یہ قرارداد 141 حق میں، 7 مخالفت میں اور 32 غیر جانبدار ووٹوں کے ساتھ منظور کی گئی۔
واضح رہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں عملدرآمد کی پابند نہیں ہیں جبکہ روس ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل ہے، روس کے علاوہ جن سات ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، وہ شام، بیلاروس، نکاراگوا، مالی، اریٹیریا اور شمالی کوریا تھے۔
تاہم پاکستان، چین، کیوبا، ایران، بھارت، ویت نام، زمبابوے، ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، یوگنڈا، ٹوگو، جنوبی افریقہ، سوڈان، سری لنکا، نمیبیا، ایتھوپیا، بنگلہ دیش اور الجزائر ان 32 ممالک میں شامل تھے جنہوں نے اس قرارداد کے سلسلہ میں غیر جانبدار ووٹ دیا،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دو روزہ اجلاس کے دوران 75 سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں نے یوکرین کی جنگ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ 21 فروری 2022 کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ماسکو کے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے مغرب کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ڈونباس کے علاقے میں ڈونیٹسک اور لوہانسک عوامی جمہوریہ کی آزادی کو تسلیم کیا جس کے تین دن بعد جمعرات 24 فروری کو پیوٹن نے ایک فوجی آپریشن شروع کیا جسے انہوں نے یوکرین کے خلاف خصوصی آپریشن کا نام دیا اور یوں ماسکو اور کیف کے درمیان کشیدہ تعلقات فوجی تصادم میں بدل گئے۔
واضح رہے کہ روس کے اس اقدام کے جواب میں امریکہ اور مغربی ممالک نے ماسکو کے خلاف وسیع پابندیاں عائد کر دی ہیں جبکہ اربوں ڈالر کے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان کیف کو دیا ہے،اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 5 مارچ کو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک امریکہ نے کیف کو تقریباً 68 ارب ڈالر کی فوجی اور مالی امداد دی ہے،یہاں تک کہ جب روس نے عارضی جنگ بندی کی تجویز پیش کی اور اقوام متحدہ نے اس کا خیرمقدم کیا لیکن بائیڈن حکومت نے یوکرین کو فوجی مدد اور ہتھیار بھیجنے کا وعدہ کیا جو تجزیہ کاروں کے خیال میں یوکرین میں تنازعات کو جاری رکھنے اور کشیدگی کو بڑھانے کی واشنگٹن کی خواہش کی علامت ہے۔