?️
ٹرمپ کے منصوبے پر مزاحمت کے جواب پر ایک نظر،حماس نے سیاسی محاصرہ کیسے توڑا؟
فلسطینی تحریکِ مقاومت حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر ایسا جامع اور سوچا سمجھا جواب دیا ہے جو نہ تو اس منصوبے کی مکمل تائید کرتا ہے اور نہ ہی اسے براہِ راست مسترد کرتا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے حماس نے نہ صرف اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہتے ہوئے ایک نیا سفارتی راستہ کھولا بلکہ اس سیاسی محاصرے کو بھی توڑ دیا جو طویل عرصے سے اس کے گرد قائم تھا۔
ذرائع کے مطابق حماس نے دوحہ میں مصر، قطر اور ترکی کی ثالثی کے دوران داخلی سطح پر دیگر فلسطینی گروہوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد ایک متوازن حکمتِ عملی اپنائی۔ مقصد یہ تھا کہ واشنگٹن اور تل ابیب کی طرف سے جاری دباؤ کے باوجود مذاکراتی عمل میں شرکت کے لیے سفارتی لچک دکھائی جائے، مگر بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
حماس کے ترجمانوں کے مطابق تنظیم نے ٹرمپ کے منصوبے کو موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا لیکن اس کی مکمل نفی بھی نہیں کی۔ اس پالیسی سے تنظیم نے وقت خریدا، بین الاقوامی سطح پر مثبت تاثر دیا اور یہ تاثر ختم کیا کہ وہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے مسئلے پر بھی اپنی حکمتِ عملی بدلی ہے۔ اب تنظیم سمجھتی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کو محض دباؤ کے آلے کے طور پر رکھنا فائدہ مند نہیں رہا، کیونکہ اسرائیل نے جنگ کے دوران ان قیدیوں کو بھی نظرانداز کیا۔ اسی بنا پر حماس نے امریکی منصوبے کے اس حصے پر نرمی دکھائی جو قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے، مگر دیگر شقوں پر مزید مذاکرات کا مطالبہ برقرار رکھا۔
ترکی، قطر اور مصر کے اعلیٰ حکام نے حماس کے مؤقف کو واشنگٹن تک پہنچایا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان اور قطری امیر تمیم بن حمد آل ثانی نے براہِ راست ٹرمپ سے رابطہ کر کے حماس کے جواب کو "امن کے لیے ایک قابلِ عمل موقع” قرار دیا۔ ان کوششوں کے بعد ٹرمپ نے بھی نرم رویہ اختیار کیا اور سوشل میڈیا پر بیان دیا کہ "حماس امن کے لیے تیار ہے اور اسرائیل کو بمباری روکنی چاہیے”۔
امریکی صدر اور ان کے معاونین نے حماس کے جواب کا مکمل متن اپنے سرکاری اکاؤنٹس پر جاری کیا، جسے مبصرین نے حماس کی غیر رسمی تسلیمیت قرار دیا۔ یوں ایک ایسی تنظیم جسے طویل عرصے سے "دہشت گرد” قرار دیا جاتا تھا، اب بین الاقوامی مذاکرات میں ایک سیاسی فریق کے طور پر سامنے آئی۔
اس پیش رفت نے صہیونی ذرائع ابلاغ میں سخت ردِعمل پیدا کیا۔ اسرائیلی تجزیہ کاروں نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ "نوبیل امن انعام” کے لیے اسرائیل کو قربان کر رہا ہے۔ دوسری جانب، غزہ کے محاصرے کو توڑنے کی عالمی مہم اور اسرائیل کے تازہ حملوں نے بھی عالمی رائے عامہ کو تل ابیب کے خلاف مزید بھڑکا دیا۔
اگرچہ یہ واقعہ نہ مکمل فتح ہے نہ شکست، لیکن یہ فلسطینی مقاومت کے ایک نئے دور کا آغاز ضرور ہے۔ حماس نے میدانِ جنگ میں استقامت دکھانے کے بعد اب سفارتی سطح پر بھی ایسی مہارت دکھائی ہے جس نے اسے عالمی سیاست میں دوبارہ ایک موثر فریق بنا دیا ہے۔
غزہ، جو دو برس سے تباہ کن محاصرے میں ہے، اب صرف مزاحمت کی علامت نہیں بلکہ سیاسی بصیرت اور سفارتی فراست کی مثال بھی بن چکا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
پی ٹی آئی نے کیا کیا اور ن لیگ کیا کر رہی ہے؟ عمر ایوب کی زبانی
?️ 30 جولائی 2024سچ خبریں: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما
جولائی
غزہ میں جنگ بندی کے مخالفین انسانی جرائم کے براہ راست ذمہ دار
?️ 12 دسمبر 2023سچ خبریں:ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر نعمان کرتولموش نے کہا کہ غزہ میں
دسمبر
صیہونی حکومت کی کابینہ کے خلاف اسرائیلی فوجی قیدیوں کے خاندان کا شدید احتجاج
?️ 13 دسمبر 2021سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں پکڑے جانے والے صہیونی فوجی حدر گولڈن
دسمبر
بھار ت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیاہے: کل جماعتی حریت کانفرنس
?️ 10 جون 2025سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں
جون
پاکستان میں بوسٹرڈوز آج سے لگائی جائے گی
?️ 3 جنوری 2022اسلام آباد (سچ خبریں) عالمی وباء کورونا وائرس کی نئی قسم اومی
جنوری
عراق کے خلاف نئی امریکی سازش
?️ 16 جون 2024سچ خبریں: حال ہی میں عراق میں امریکی سفیر کے عہدے کے
جون
تجارتی کشیدگی کے درمیان ٹرمپ اور جن پنگ نے فون پر بات کی
?️ 19 ستمبر 2025سچ خبریں: چین کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ملک
ستمبر
غزہ کی جنگ میں اب تک مارے جانے والے صحافی
?️ 21 اکتوبر 2023سچ خبریں:فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان حالیہ تنازع کے آغاز سے
اکتوبر