سچ خبریں:گزشتہ چند ماہ میں امریکی سابق صدر اور 2024 کے انتخابات میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر مسلسل تین قاتلانہ حملے ہوئے، اگرچہ ابتدائی طور پر ان حملوں نے ٹرمپ کی حمایت اور مقبولیت کو بڑھایا، مگر وقت کے ساتھ ان کا اثر کم ہوگیا۔
2024 کے انتخابات کے آغاز کے ساتھ ہی ٹرمپ پر کئی ناکام قاتلانہ حملے ہوئے، پہلا اور سب سے نمایاں واقعہ 13 جولائی کو پینسیلوینیا کے شہر بٹلر میں انتخابی اجتماع کے دوران پیش آیا جس میں ایک 20 سالہ شخص تھامس میتھیو کروکس نے نیم خودکار رائفل سے دور سے فائرنگ کی، ایک گولی ٹرمپ کے کان کے قریب سے گزری جبکہ تین گولیاں حاضرین کو لگیں جس کے نتیجے میں حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام؛ پاکستانی شہری کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی کی سازش
15 ستمبر 2024 کو فلوریڈا میں ٹرمپ کے گلف کلب میں دوبارہ قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی۔ حملہ آور، جو جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا، کو سیکیورٹی اہلکار نے دیکھ لیا اور فرار کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا گیا، حملہ آور نے ٹرمپ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر سکیورٹی سروس کے بروقت ردعمل نے اسے ناکام بنا دیا۔
ان واقعات کے بعد ٹرمپ کی سکیورٹی سخت کردی گئی اور ان کے عوامی اجتماعات میں بلٹ پروف شیشے کا استعمال بھی کیا گیا۔
تیسری کوشش 23 اکتوبر کو ٹرمپ کے حامیوں کے اجتماع میں کوچلا میں ہوئی۔ 49 سالہ وم ملر نامی شخص کو پولیس نے اس کے پاس سے دو بندوقیں اور گولیاں برآمد کرنے کے بعد حراست میں لیا۔ ملر نے خود کو ٹرمپ کا 100 فیصد حامی قرار دیا اور قاتلانہ حملے کی کوشش سے انکار کیا۔
نیویارک پوسٹ کے مطابق میلر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی گرفتاری کے بعد الزامات سے حیرت زدہ ہے۔
ریورسائیڈ کے شیرف چاد بیانکو نے کہا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے نائبین نے ٹرمپ پر تیسرے قاتلانہ حملے کو ناکام بنایا ہے، اگرچہ میلر کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی زندگی میں کسی پر گولی نہیں چلائی اور وہ اپنے تحفظ کے لیے گاڑی میں ہتھیار رکھتا تھا۔
ٹرمپ کی عارضی مقبولیت اور ہیروپن
اگرچہ دو آخری قاتلانہ حملے زیادہ توجہ کا مرکز نہیں بنے، مگر پہلا حملہ، جس میں ایک گولی ٹرمپ کے کان کو چھو گئی، نے انہیں 2024 کے انتخابی میدان میں ان امریکی صدور کی صف میں کھڑا کر دیا جن پر قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔
امریکہ کے کچھ صدور جیسے جرالڈ فورڈ، تھیوڈور روزویلٹ اور رونالڈ ریگن بھی قاتلانہ حملوں سے بچ نکلے اور اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر، ریگن کا زندہ بچنا ان کی دوسری مدت کی کامیابی کی بنیاد بنا اور 1984 کے انتخابات میں انہوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
اسی طرح، جولائی 2024 میں ٹرمپ پر حملے نے ان کی عارضی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ایک سروے میں دکھایا گیا کہ حادثے کے بعد جارجیا اور ورجینیا جیسی ریاستوں میں انہیں عوام کی ہمدردی ملی، ورجینیا میں، جہاں ٹرمپ پہلے جو بائیڈن سے پیچھے تھے، عوامی رائے تبدیل ہونے لگی اور کچھ ڈیموکریٹس بھی ٹرمپ کی حمایت میں آگئے۔
کملا ہیرس کے مقابلے میں ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی
قاتلانہ حملے نے اگرچہ ٹرمپ کی حمایت کو عارضی طور پر بڑھایا، مگر ڈیموکریٹس کے دباؤ پر بائیڈن کے دستبردار ہونے اور کیملہ ہیرس کو ان کے مقام پر لانے سے انتخابی مہم کا منظرنامہ بدل گیا، ٹرمپ اور ہیرس کی پہلی مناظرے میں ہیرس کی کامیابی نے ٹرمپ کو دفاعی پوزیشن پر کر دیا، اور انہوں نے دوسری مناظرے میں شرکت سے انکار کر دیا۔
نئی عوامی رائے شماری میں یہ واضح ہوا کہ کیملا ہیرس نے ٹرمپ پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
نیوزویک کے مطابق، انتخابی مہم میں صرف تین ہفتے باقی ہیں اور کیملا ہیرس قومی سطح پر ٹرمپ سے آگے ہیں، مگر کلیدی ریاستوں میں مقابلہ ابھی بھی سخت ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ پرحملے کی وجوہات
ایک سروے کے مطابق، ہیرس کو 50 فیصد اور ٹرمپ کو 48 فیصد حمایت حاصل ہے۔ فائیو ترتی ایٹ کے تجزیے کے مطابق، قومی سطح پر ہیرس کی برتری 2.4 فیصد ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 5 نومبر کو ہونے والے انتخابات تک کیا تبدیلیاں آتی ہیں جو اس انتہائی قریبی اور سخت مقابلے کو کسی سمت میں لے جائیں۔