سچ خبریں:بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ کے ہاتھوں عدالتی نظام کی طاقت کو کم کرنے اور فوج کے ڈھانچے میں اصلاحات کے منصوبوں نے مقبوضہ علاقوں میں ماحول کو کشیدہ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں دسیوں ہزار صیہونی اور سابق حکام سڑکوں پر آ کر متنازعہ اقدام کی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں جسے تل ابیب کے رہنماؤں نے جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ اور صیہونی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا باعث قرار دیا ہے۔
صہیونی پارلیمنٹ میں بنیامین نیتن یاہو کی چھٹی کابینہ کو اعتماد کا ووٹ دیے جانے والا اجلاس ہی انتہائی کشیدہ اور انتہائی سکیورٹی کے ماحول میں منعقد ہوا جس سے یہ واضح ہورہا تھا کہ سخت وقت ان کا اور انتہائی دائیں بازو کا انتظار کر رہا ہے، ایک طرف جہاں نیتن یاہو نے بحران کو جلد حل کرنے اور عوامی اعتماد کو بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا، دوسری طرف وہیں انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کی جانب سے شروع کیے گئے متنازعہ منصوبوں نے عوامی غصے اور عدم اطمینان کو ہوا دی ہے۔
اس سلسلے میں حیفا، تل ابیب اور قدس کے شہروں میں دسیوں ہزار افراد نے سڑکوں پر نکل کر نیتن یاہو کی کابینہ کی پالیسیوں کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا،یہ مظاہرے نیتن یاہو کی کابینہ کی جانب سے عدالتی نظام میں تبدیلی کی کوششوں کے جواب میں کیے گئے جن میں اس کوشش کو ’جمہوریت کے خلاف انقلاب‘ قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ تقریباً 100000 کی تعداد میں مظاہرین نے نیتن یاہو کے استعفیٰ اور ان کے کرپشن کیس کی پیروی کا مطالبہ کیا جبکہ بائیں بازو اور اعتدال پسند سیاسی دھاروں سے تعلق رکھنے والیمظاہرین خوفزدہ ہیں کہ نئی کابینہ عدالتی نظام کو تبدیل کر کے اپنے فائدے کے لیے اسے عملی طور پر ضبط کر لے گی۔
اس مظاہرے کے مدعو کرنے والوں میں سابق کابینہ کے سینئر عہدیدار یائر لاپڈ اور بینی گینٹز بھی شامل تھے،بینی گینٹز، جو دیگر سابق اہلکاروں کے ساتھ مظاہرین کی صف میں تھے، نے کہا کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری رکھیں گے۔