نیتن یاہو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد نہیں چاہتے 

نتن یاہو

?️

 نیتن یاہو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد نہیں چاہتے
سیاسی مبصرین اور ماہرینِ امورِ مشرق وسطیٰ کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے تازہ اور شدید حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو دراصل جنگ بندی (Ceasefire) کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے خواہاں نہیں ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد سے اسرائیلی فوج کے بڑھتے حملات نے تل ابیب کے عزائم پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حملے محض کسی "آتش بس کی خلاف ورزی کے جواب” میں نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔
پروفیسر محمود یزبک، جو اسرائیلی امور کے ماہر اور یونیورسٹی آف حیفا میں استاد ہیں، کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ملکی سیاست اور آنے والے پارٹی انتخابات کے پیش نظر جنگی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں۔ ان کے مطابق، غزہ پر اسرائیل کے حملے رفح کے محدود سیکیورٹی واقعے سے میل نہیں کھاتے، خاص طور پر جب حماس نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول بھی نہیں کی۔
یزبک کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی کے مسئلے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ آتش بس کے دوسرے مرحلے میں پیش رفت سے گریز کر سکیں۔
اسی طرح، احمد عطاونه، جو استنبول میں قائم ادارہ سیاسی تجزیہ  کے ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اسی طرزِ عمل کو دہرا رہا ہے جو وہ لبنان کے خلاف اختیار کرتا رہا ہے — یعنی ہر واقعے کو نئے حملوں کا بہانہ بنا لینا۔ ان کے مطابق، تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نیتن یاہو کی کابینہ جان بوجھ کر جنگ بندی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔
ابراہیم فریحات، ایک اور سیاسی تجزیہ کار، کے مطابق نیتن یاہو مرحلہ دوم کے آغاز کو مؤخر کر کے حماس اور فلسطینی عوام پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسرائیل میں آنے والے انتخابات اور امریکی دباؤ میں کمی نے بھی نیتن یاہو کو مزید جارحانہ رویہ اپنانے کا حوصلہ دیا ہے۔
دوسری جانب، سابق امریکی وزارتِ خارجہ کے اہلکار تھامس وارک نے تصدیق کی ہے کہ واشنگٹن فریقین کو جنگ بندی کے وعدوں پر قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق، ماہرین کا متفقہ خیال ہے کہ آتش بس کا مستقبل اسرائیل کے میانجی ممالک کے ساتھ تعاون اور امریکہ کے کردار پر منحصر ہے  خصوصاً سرحدی گذرگاہوں کے دوبارہ کھلنے اور مرحلہ دوم میں داخلے سے متعلق سیکیورٹی انتظامات پر۔
تحلیل کاروں کے مطابق، مرحلہ دوم اب بھی غیر واضح ہے اور اس پر کوئی سنجیدہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ اسرائیلی حملے اس مقصد سے جاری رکھے جا رہے ہیں کہ فلسطینی فریق کو مصروف رکھا جائے تاکہ جنگ بندی پر عمل درآمد مؤخر ہوتا رہے۔
الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں کا تسلسل اس بات کا مظہر ہے کہ تل ابیب کی پالیسی دراصل داخلی سیاسی مفادات اور سیکیورٹی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے، اور حقیقی جنگ بندی صرف مسلسل بین الاقوامی دباؤ اور امریکی کردار سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ حماس نے مطابق 9 اکتوبر 2025 کو غزہ میں جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد 18 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے بھی آتش بس کے نفاذ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، اس کے باوجود تل ابیب بارہا جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور مرحلہ اول کے مکمل نفاذ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔

مشہور خبریں۔

او آئی سی سی آئی کا ٹیکس چھوٹ کیلئے آمدنی کی حد سالانہ 12 لاکھ روپے کرنے کا مطالبہ

?️ 29 اپریل 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (او

اسرائیل کی غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی ہمت نہیں

?️ 21 اکتوبر 2023سچ خبریں:ٹائم میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی

پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے

?️ 2 نومبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) طورخم بارڈر کے راستے سے گزشتہ روز 5,220

 صیہونی حکومت کی لبنان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں

?️ 13 مارچ 2025 سچ خبریں:اسرائیل خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور لبنان کے

کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے پاک فوج دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ کوشاں ہے

?️ 31 مئی 2021اسلام آباد(سچ خبریں) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے

فلسطینی مزاحمتی تحریک کی نئی ڈیٹرنس مساوات

?️ 4 جنوری 2022سچ خبریں:لبنان کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی

ججز کی مدت ملازمت میں توسیع، قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان

?️ 14 ستمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں 26ویں

مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بار پھر نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا

?️ 27 اکتوبر 2024خوشاب: (سچ خبریں) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے