سچ خبریں:جیسے جیسے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملے کی بیسویں برسی قریب آرہی ہےحملے سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ امریکی عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان حملوں میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کے ابہام کو واضح کرے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق نائن الیون کی بیسویں برسی قریب آنے کے ساتھ ہی ان حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ نے امریکی عدلیہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ان حملوں میں سعودی حکومت کی شمولیت پر مبنی ابہامات کوواضح کرے۔
یادرہے کہ رواں سال ان شکایات میں سے ایک کے مقدمے کی سماعت میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور سابق سعودی عہدیداروں نے اس مقدمے کی سماعت میں گواہیاں دی ہیں جن کی تفصیلات ابھی بھی خفیہ ہیں نیز امریکی حکومت نے اس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے ان مقدمات میں پیش کردہ شواہد کا ایک بڑا حصہ ابھی تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔
ان معلومات کا عدم انکشاف متاثرین کے اہل خانہ میں عدم اطمینان کا باعث بنا ہے جن کا قانونی چارہ جوئی کا مقصد امریکی شہروں پر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں میں سعودی حکومت کے کردار کو ثابت کرنا ہے۔
واضح رہے کہ ان حملوں کے متاثرہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جومعلومات وفاقی پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے قبضہ میں ہیں، اہل خانہ کو کیوں نہیں دی گئی ہیں جبکہ اہل خانہ کے ایک گروپ کے وکیلوں کا ارادہ ہے کہ وہ عدالت کے جج سے یہ معلومات خاص طور پر اہل خانہ کو فراہم کریں جبکہ ضابطے کے مطابق وکلاء کو عدالت کے ذریعہ جمع کردہ معلومات کو ظاہر کرنے کا حق نہیں ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ یہ معلومات ان کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہیں کہ سعودی عرب نے حملوں میں حصہ لیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ریاض ہمیشہ حملوں یا انھیں انجام دینے والے افراد کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث ہونے سے انکار کرتا رہا ہے ، لیکن یہ موضوع نیو یارک کی عدالتوں میں خاندانی شکایات کا ایک خاص مرکز بن گیا ہے۔
یادرہے کہ ان حملوں ملوث 19 ہائیجیکرز میں سے 15 افراد اور ان کا ڈیزائنر اسامہ بن لادن ، سعودی شہری تھے،مدعیوں کا الزام ہے کہ سعودی حکومت کے ایجنٹوں نے انھیں ریاستہائے متحدہ کے سفر کے لئے ضروری شرائط فراہم کیں۔
دریں اثنا ایف بی آئی کی جو تحقیقات اس رپورٹ سے منسلک ہیں ،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کے سکیورٹی اور سفارتی ایجنٹوں نے دہشت گردوں کو رسد فراہم کی نیز ان کے امریکی امدادی نیٹ ورک کے بغیر اس طرح کا حملہ ممکن نہیں تھا۔